مرکزی حکومت سے لے کر کئی ریاستوں کی کابینہ تک ایک بھی مسلم وزیر نہیں، مسلمانوں کو اپنی قیادت کھڑی کرنی ہوگی: سابق ڈی جی پی ایم ڈبلیو انصاری
اس وقت مرکز سمیت کئی ریاستوں کی حکومتوں میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔ ان میں آسام، گجرات، تلنگانہ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش جیسی بڑی ریاستیں بھی شامل ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی کئی کروڑ ہے۔
نئی دہلی: اس وقت مرکز سمیت کئی ریاستوں کی حکومتوں میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔ ان میں آسام، گجرات، تلنگانہ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش جیسی بڑی ریاستیں بھی شامل ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی کئی کروڑ ہے۔
وہیں ملک گیر سطح پر بھی اگر دیکھا جائے تو مسلمان آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہیں۔ اس کے باوجود اتنی بڑی کمیونٹی کی مضبوط قیادت نہ ہونا باعث تشویش اور لمحہ فکریہ ہے۔
اس کو جاننا اور سمجھنا مسلم کمیونٹی کے لئے بہت ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ وہ کون سی طاقتیں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو حاشیہ پر لاکھڑا کر دیا ہے اور ہر شعبہ میں ہر طرح سے پیچھے کر دیا ہے۔ ان خیالات کااظہار سابق ڈی جی پی ایم ڈبلیو انصاری نے یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں کیا۔
انھوں نے کہا کہ پانچ ریاستوں میں حالیہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے عمل میں بھی مسلمانوں کی شرکت ندارد رہی۔ وہیں کانگریس کے زیر اقتدار تلنگانہ کی کابینی توسیع میں بھی مسلم اُمیدوار کو جگہ نہیں ملی۔ بی جے پی کے حصے میں آئی چھتیس گڑھ اسمبلی میں بھی ایسا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کی تو بات ہی کیا؟
مسٹر انصاری نے کہا کہ اس سے بڑی قابل افسوس بات اور کیا ہوگی کہ اقلیتی وزارت کی کمان بھی مسلم کمیونٹی سے نہیں ہے۔اسمرتی ایرانی جن کا تعلق پارسی مذہب سے ہے وہ اقلیتی وزارت کی ذمہ داری دی ہوئی ہے اور اقلیت وزارت بھی بند ہونے کی کگار پر ہے اور ممکن ہے کہ یہ وزارت بند کر دیا جائے۔ تمام فلاح بہبود کی اسکیمیں تو بند ہو ہی گئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک ہندوستان میں ہر طبقے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تعداد کے لحاظ سے تمام مذاہب میں نمایاں فرق ہے۔ مسلم کمیونٹی ملک کی آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ نیز ملک کی کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں مسلم اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ لیکن اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجوداس ملک میں مسلمانوں کی قیادت صفر ہے۔ مرکزی حکومت سے لے کر کئی ریاستوں کی حکومتوں میں مسلم کمیونٹی کا ایک بھی وزیر نہیں ہے۔ جن ریاستوں میں حال ہی انتخابات ہوئے ہیں وہاں بھی اور دیگر اور بھی ریاستوں میں حالات ایک جیسے ہیں۔
انھوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی مسلم پسماندہ کا نام لیکر مسلمانوں کی بات تو کرتی ہے لیکن ان کے حق میں کوئی کام نہیں کرتی اور صرف بی جے پی ہی نہیں بلکہ کوئی بھی نام نہاد سیکولر پارٹی چاہے وہ کانگریس ہو بی ایس پی ہو، سماج وادی پارٹی ہو یا دیگر کوئی بھی سیکولر پارٹی ہو کسی نے بھی انتخابات میں آبادی کے تناسب سے ٹکٹ تقسیم نہیں کیا۔
نیز آئندہ انتخابات میں کتنوں کو ٹکٹ دینے والی ہیں۔ تمام پارٹیاں متحد ہوکر ذات کی مردم شماری یعنی جاتی گت جن گڑنا کی بات کیوں نہیں کرتیں؟، سبھی ذات برادری کو سادھا جا رہا ہے پھر مسلم برادری کو کیوں درکنار کیا جارہا ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ کوئی بھی پارٹی مسلمانوں کی خیر خواہ نہیں ہیں۔
تمام ہی پارٹیاں مسلم برادری کو محض ووٹ بینک سمجھتی ہیں،اس سے بڑھ کر مجرم وہ لوگ ہیں جو مسلم برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور بی جے پی یا دیگر پارٹی میں شامل ہیں لیکن اپنی قوم پر ہو رہے مظالم کے خلاف اپنی زبان کھولنا گوارہ نہیں کرتے۔ اپنے حقوق کا کبھی مطالبہ نہیں کرتے۔ محض سیاسی پارٹیوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔
آج ایسے لوگوں کو بھی سبق سکھانا چاہئے اور ایسے افراد کو منتخب کرنا چاہئے جو قوم کے تئیں مخلص ہو اور واقعی قائد ہونے کا حقدار ہو اور ہر سطح پر قوم کے ساتھ ہو رہی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرے۔
انھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ملک کے حالات سے واقف ہو، باہمی اختلافات کو ختم کریں، لوگوں میں سیاسی اور سماجی شعور بیدار کریں۔ اپنے حقوق کو سمجھیں اور اپنے حقوق کے لئے ہر سطح پر آواز اُٹھائیں۔
اگر اپنی شناخت اس ملک میں باقی رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی قیادت کو مضبوط کریں،اپنی قیادت کھڑی کریں ورنہ کوئی مسلمانوں کے مسئلے مسائل کو بولنے والا نہیں ہوگا،مساجد و مدارس، وِراثت، نشانیاں جو کچھ بھی مسلمانوں کے نام سے ہے محفوظ نہیں رہیں گی،اس لئے متحد ہو کر صحیح قیادت کو چنے جس سے ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل روشن و تابناک ہو۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت میں اس وقت ایک بھی مسلم وزیر نہیں۔مدھیہ پردیش میں گزشتہ چار بار بی جے پی حکومت کے دوران کوئی مسلم وزیر نہیں رہا۔ مسلم کمیونٹی سے متعلق ادارے مثلاً مدھیہ پردیش ریاستی اقلیتی کمیشن، مدھیہ پردیش وقف بورڈ، ریاستی حج کمیٹی، مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈ وغیرہ میں بھی زیادہ تر ادارے پچھلے کئی برسوں سے خالی پڑے ہیں۔ اقلیتی کمیشن بھی طویل عرصے سے خالی پڑا ہے، محض چند اداروں میں تقررات کیے گئے ہیں وہ بھی محض دکھاوے کے طور پر، غرض یہ کہ کم و بیش یہی حالات سبھی ریاستوں میں ہیں۔