مضامین

قدرت کا عظیم تحفه: نباتاتی ربر؛ تاریخی اور سائنسی جائزہ

نباتاتی ربر، بمعنی قدرتی ربر (Natural Rubber) کی دریافت اور اس کا بے پناہ استعمال کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے۔ پندرہویں صدی کے اختتام پر جب کولمبس امریکہ پہونچا تو وہاں اسے ایک ایسی شئے دیکھ کر حیرت ہوئی جو بقول اس کے ایک جاندار کی طرح کودتی اور پھدکتی تھی۔

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

نباتاتی ربر، بمعنی قدرتی ربر (Natural Rubber) کی دریافت اور اس کا بے پناہ استعمال کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے۔ پندرہویں صدی کے اختتام پر جب کولمبس امریکہ پہونچا تو وہاں اسے ایک ایسی شئے دیکھ کر حیرت ہوئی جو بقول اس کے ایک جاندار کی طرح کودتی اور پھدکتی تھی۔

یہ ربر کے وہ گیند تھے جو وہاں کے قبائلی لوگ کھیل کود میں استعمال کرتے تھے۔ اسے وہاں کی زبان میں کونو (Cougchouc) کہا جاتا تھا اور انہیں جنگلی درختوں سے حاصل کیا جاتا تھا جو جنوبی امریکہ کے جنگلوں میں بالعموم اور برازیل کے جنگلات میں بالخصوص بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے اور جن کو ہی وی Hevea کہا جاتا تھا۔

ان درختوں میں چیر لگا کر ایک قسم کا دودھ یعنی Latex نکالا جاتا۔ اس کو مٹی کے بنائے ہوئے گیندوں پر لیپ کے طور پر لگا کر پکا لیا جاتا۔ اس پکی ہوئی شئے ہی کوفو تھی جس کے قبائلی لوگ جوتے بھی بناتے تھے اور مختلف اقسام کے گیند بھی۔

غرضیکہ کوفو نام کی یہ شئے یورپ لائی گئی اور 1751 میں پہلی مرتبہ پیرس کی سائنس اکیڈیمی Science Academy میں اس پر ایک مقالہ پڑھا گیا اور اس طرح پورے یورپ کی توجہ اس کی طرف مرکوز ہو گئی۔ مشہور سائنسداں Priestely نے پہلی بار یہ معلوم کیا کہ پنسل سے لکھی گئی تحریر اس سے مٹائی جاسکتی ہے۔ اس طرح اس کا نام ربر (Rubber) دیا گیا۔ اسے پارا ربر (Para Rubber) بھی کہا گیا کیونکہ اس وقت تک ربر برازیل کے علاقہ ‏Para سے لایا جاتا تھا۔

اٹھارہویں صدی کے اختتام تک یورپ میں ربر کی سپلائی کافی ہوگئی اور Machantosh (میک انٹوش) نامی ایک شخص نے ربر سے Waterproof کپڑا بنایا جو بہت مقبول ہوا۔ لیکن ربر کے استعمال میں اصل انقلاب اس وقت آیا جب 1839 میں Goodyear نام کے ایک سائنسداں نے ربر کو سلفر Sulphur کے ساتھ ملا کر گرم کیا تو نسبتا زیادہ مضبوط ربر حاصل ہوا۔ اس عمل کو Vulcanization کہا جانے لگا۔

سال 1867 میں پہلی بار Vulcanized ربر سے ٹھوس ٹائر بنائے گئے جو مختلف گاڑیوں میں استعمال میں لائے گئے۔ 1888 میں Dunlop نام کے ایک شخص نے اسی ربر سے سائیکل کے لئے ٹائر اور ٹیوب بنائے جو اندر سے خالی تھے۔ اس کے استعمال سے سائیکل کو تیز رفتار چلانا ممکن ہوگیا۔ پھر کیا تھا اس قسم کے ٹائر اور ٹیوب موٹر گاڑیوں میں اور بعد میں ہوائی جہاز میں لگائے جانے لگے اور صنعتی انقلاب لانے میں ان سے بڑی مدد ملی۔

اب ربر کی کھپت اتنی زیادہ ہوگئی کہ برازیل سے حاصل کردہ ربر کم پڑنے لگی۔ چنانچہ اس بات کی کوشش کی جانے لگی کہ ربر کے پودے ان علاقوں میں لگائے جائیں جن کی فضا برازیل سے ملتی ہوئی ہو۔ لہذا برازیل سے ربر کے درختوں کے seeds منگوا کر لندن کے Royal Botanic Garden میں اس کی Seedlings تیار کی گئیں اور انہیں ملائیشیا، انڈو نیشیا، سری لنکا اور ہندوستان کے مشہور سائنسی ادارہ سروے آف انڈیا کلکتہ بھیج دیا گیا۔ جہاں کچھ دقتوں کے باوجود یہ پودے چل نکلے اور 1915ء تک یہ عالم ہو گیا کہ ربر کی اصل سپلائی انڈونیشیا اور ملائیشیا سے ہونے لگی اور برازیل کی ربر کی صنعت بحران کا شکار ہوگئی۔ ربر کی کل پیداوار جو 1900ء میں صرف 45 ہزار ٹن تھی وہ 1940ء تک چار لاکھ ٹن ہوگئی۔ یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا اور 1966ء میں ایک اندازے کے مطابق ایشیا میں 24 لاکھ ٹن ربر پیدا کیا گیا۔

انٹر نیشنل ربڑ اسٹڈی گروپ (IRSG) کے مطابق موجودہ عالمی پیداوار تقریباً 14 ملین ٹن ہو گئی ہے۔ فی زمانہ دنیا میں سب سے زیادہ ربر پیدا کرنے والے 10 ممالک میں تھائی لینڈ (48 لاکھ میٹرک ٹن سالانہ )، انڈونیشیا، ویت نام، ہندوستان، چین، ملائیشیا، سری لنکا، آئیوری کوسٹ، فلپائن اور کیمرون ہیں۔

سی ایس آئی آر کی رپورٹ کے مطابق قدرتی ربر کی پیداوار کے طور پر ہندوستان دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ کیرالہ کے موزوں موسمی حالات اور فزیوگرافی کی بنا پر اس ریاست میں ربر کی کاشت کو فروغ ملا۔ اسی لئے کیرالہ تقریباً 4.9 لاکھ ٹن کے ساتھ قدرتی ربر کا سب سے بڑا پیداواری صوبہ بن گیا ہے۔ اس کے بعد تریپورہ (54 ہزار)، کرناٹک (40 ہزار)، آسام (25 ہزار) اور تامل ناڈو (22 ہزار ٹن) کا نمبر آتا ہے۔

ویتنام کے بعد ہندوستان قدرتی ربر کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا Exporter ہے۔ جس سے نہایت ضروری بیرونی زرمبادلہ (Foreign Exchange) حاصل ہوتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران ربر کی سپلائی اور صنعت میں ایک بحران پیدا ہو گیا تھا کیونکہ جاپان نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جہاں ربر کی پیداوار تھی۔ لہذا یورپ اور امریکہ میں مصنوعی ربر بنانے کی زبردست مہم چلائی گئی جو جنگ کے خاتمہ کے بعد بھی جاری رہی اور جس میں بڑی کامیابیاں ملیں اور مصنوعی ربر کی پیداوار قدرتی ربر کی پیداوار سے زیادہ ہوگئی۔

اس کے باوجود مصنوعی ربر قدرتی ربر کا بدل نہ بن سکی۔ آج بھی اچھے قسم کے ٹائر اور ٹیوب بغیر قدرتی ربر ملائے بنانا ممکن نہیں ہے۔ غالباً جرمنی مصنوعی ربر کا سب سے زیادہ پیدا کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ مصنوعی ربر ایک پولیمر (Polymer) ہے جو پیٹرول کوئلے اور قدرتی گیس سے خام مال کے طور پر بنایا جاتا ہے اور اسے Olefins اور Dienes کے ساتھ Monomers کے طور پر پولیمرائز (Polymerise) کیا جاتا ہے۔

مصنوعی ربر، قدرتی ربر کی طرح، ٹائر وغیرہ کے لئے Automobile انڈسٹری میں بڑی مقدار میں استعمال ہوتے ہیں لیکن ہوائی جہاز کے ٹائروں میں نہیں۔ کیونکہ ٹیک آف اور لینڈنگ کے دوران ہوائی جہاز کے ٹائر بہت زیادہ رگڑ کا شکار ہوتے ہیں۔ رگڑ کے ذریعے قدرتی طور پر پیدا ہونے والی بجلی کو بے اثر کرنے کے لئے (Conductive rubber) سے بنے ٹائر استعمال کئے جاتے ہیں جس میں Polyisoprene ربر ( قدرتی ربر ) کی ضروری مقدار ہوتی ہے۔

آئیے اب بات قدرتی ربر کی کیمیاوی خصوصیات اور اس کے استعمال کی کریں۔ ربر کی ایک خالص ہائیڈرو کاربن ہے جس کا ‏ Molecular Weight تقریباً 3 لاکھ 50 ہزار ہے۔ اس میں Isoprene یعنی C50H8 کے 5 ہزار یونٹ ہوتے ہیں۔ درخت سے رسنے والے دودھ (Latex) کو ایک برتن میں ڈال کر اس کو مختلف طریقوں سے پھاڑ لیا جاتا ہے جس کو Coagulation کہتے ہیں۔

اس طرح ربر برتن کے نیچے جمع ہو جاتا ہے۔ اسے خام ربر یا Raw Rubber کہا جاتا ہے۔ اس کے کچھ ہی استعمال ہیں۔ جیسے Insulation Tape، جوتوں کے سول اور پنسل کے نشانات مٹانے کے لئے Eraser وغیرہ۔ ربر کے اصل اور بے پناہ استعمال اس وقت ہوتے ہیں جب وہ Vulcanized کیا جاتا ہے۔ یعنی ربر کو سلفر اور کچھ دوسرے اجزاء کے ساتھ ملا کر 130 ڈگری پر پکایا جاتا ہے۔

آج دنیا میں تقریبا 50 ہزار ایسی اشیاء ہیں جن کے بنانے میں Vulcanized ربر کام میں لایا جاتا ہے۔ کل ربر کی پیداوار کا تقریباً 70 فیصد حصہ ٹائر اور ٹیوب بنانے کے کام میں لایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری صنعتیں بہت کچھ ربر پر انحصار کرتی ہیں جیسے Hot Water Bags، Gaskets، Gloves، Cable Insulation، Shock Absorbers، Aprons وغیرہ۔

ساری دنیا میں قدرتی ربر کا ذریعہ صرف برازیل سے لایا گیا ہی پودا ہے جس کا نباتانی نام Hevea brasiliensis‏ دیا گیا ہے۔ یہ 40 سے 60 فٹ تک لمبا ہوتا ہے۔ آج کل گھروں میں سجانے کے لئے ایک پودہ کو بہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے جو عام اصطلاح میں Rubber Plant (ربر پلانٹ) کہلاتا ہے۔ اس کا نباتاتی نام Ficus elastica ہے جو ہندوستان کے مشرقی علاقے آسام کا پودا ہے۔ یہ پیپل، برگد، انجیر اور گولر کے خاندان کا پودا ہے۔ یوں تو اس ربر پلانٹ کے دودھ میں بھی ربر ہوتا ہے لیکن صنعتی اعتبار سے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

چنانچہ دنیا کے کسی بھی علاقہ میں اس ربر پلانٹ سے ربر نہیں نکالا جاتا ہے۔ ایسے پودے جن کے Latex میں ربر کی مقدار کم ہوتی ہے، ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہ پودے Hydrocarbon کا ذریعہ ہیں اور اس طرح ان کو پٹرول میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ پودوں سے پٹرول بنا نے کی کوششیں ساری دنیا میں ہو رہی ہیں۔

 نیشنل بوٹانیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لکھنؤ میں اس پر کام ہوا ہے۔ وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب گیہوں اور چاول کی کھیتی کی طرح پٹرول پیدا کرنے والے پودوں کی کاشت شروع کر دی جائے۔

بہرحال پودوں سے حاصل کرده ربر (نباتاتی ربر) قدرت کا ایسا عظیم تحفه ہے جس کے بغیر دنیا کی تیز رفتار زندگی ممکن نہ تهی۔

a3w
a3w