آسام میں این آر سی نہیں تو آدھار نہیں، نیا رول نافذ
آسام کابینہ نے اس فیصلہ کو چہارشنبہ کے روز منظوری دے دی ہے جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ صرف ان لوگوں کو ہندوستانی شہریوں کے طورپر تسلیم کیا جائے جنہیں ریاست میں آدھار کارڈس دیئے گئے ہیں۔
نئی دہلی: چیف منسٹر ہیمنت بشوا سرما نے اعلان کیا ہے کہ ریاست آدھار کارڈ درخواستوں سے متعلق نیا رول نافذ کرے گی۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی(جے پی سی) کے صدرنشین جگدمبیکا پال نے اس فیصلہ کی ستائش کی اور حکومت ِ آسام کے اقدام کی بھرپور حمایت کی۔ اس نئے ضابطہ کے تحت جن افراد نے شہریوں کے قومی رجسٹر میں شمولیت کی درخواست نہ دی ہو ان کی آدھار کارڈ درخواستیں مستر د کردی جائیں گی۔
آسام کابینہ نے اس فیصلہ کو چہارشنبہ کے روز منظوری دے دی ہے جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ صرف ان لوگوں کو ہندوستانی شہریوں کے طورپر تسلیم کیا جائے جنہیں ریاست میں آدھار کارڈس دیئے گئے ہیں۔
چیف منسٹر نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ ریاستی کابینہ نے مستقبل میں آدھار کارڈس کی اجرائی کے لئے اسٹانڈرڈ آپریٹنگ پروٹوکول (ایس او پی) کو منظوری دی ہے۔ اگر این آر سی کے لئے درخواست نہ دی گئی ہو تو آدھار کارڈ کے لئے درخواست کو فوری مسترد کردیا جائے گا اور مرکز کو رپورٹ بھیج دی جائے گی۔
جگدمبیکا پال نے کہا کہ ایسے فیصلے کرنا مرکز کے دائرہ ئ اختیار میں ہے۔ انہوں نے این آر سی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنا این آر سی کرائے کیونکہ این آر سی ایک ایسی فہرست ہے جس کا مقصد آسام میں ہندوستانی شہریوں کی شناخت کرنا ہے۔
ریاستی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہی ہے کہ صرف قانونی شہریوں کو اس عمل میں شامل کیا جائے۔ دہلی اسمبلی انتخابات سے پہلے بڑھتی سیاسی کشیدگی کے درمیان یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
عام آدمی پارٹی نے اتوار کے روز بی جے پی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ روہنگیا پناہ گزینوں کو دہلی میں بسارہی ہے جبکہ انہیں رسوا بھی کررہی ہے۔ جگدمبیکا پال نے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ روہنگیا اور بنگلہ دیشی جو ہمارے شہری بھی نہیں ہیں۔
میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی ان کی تائید کریں گی۔ کانگریس بھی ایسا ہی کرے گی لیکن دہلی میں ہم (بی جے پی) کیوں یہ چاہیں گے کہ کوئی آئے اور ہماری جائیدادوں پر غیرقانونی طورپر قبضہ کرلے۔
جگدمبیکا پال نے وقف ترمیمی بل پر جے پی سی کے بارے میں تازہ معلومات بھی فراہم کیں اور بتایا کہ جے پی سی نے 44 ترامیم کا جائزہ لیا ہے جو اس کی ٹیم نے تجویز کی ہیں۔ حکومت ان میں سے بعض تجاویز پر مختلف نقطہ نظر کا اظہار کررہی ہے۔
جب ہم نے مرکزی وزیر کرن رجیجو کی تجویز پر اس بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کیا ہے تو ہم ان کی رائے حاصل کریں گے اور ان کے نقطہ ئ نظر کی بنیاد پر اپنی رپورٹ تیار کریں گے۔ انہوں نے بل پر جاری مباحث میں اہم اداروں جیسے معروف اسلامی تعلیمی مرکز دارالعلوم دیوبند کے شامل ہونے کا بھی حوالہ دیا۔