مذہب

اپنی حفاظت آپ

شریعت کے عملی احکام کو چار حصوں میں بانٹا گیا ہے، اول عبادات یعنی وہ افعال جن کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے تعلق کا اظہار کرتا ہے، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، قربانی، دوسرے: معاشرت یعنی خاندانی اور سماجی زندگی سے متعلق قوانین جیسے والدین اور اولاد کے ایک دوسرے پر حقوق اور ذمہ داریاں، بھائی بہنوں کے حقوق، پڑوسیوں اور ہمسایوں کے حقوق وغیرہ، تیسری قسم معاملات کی ہے

شریعت کے عملی احکام کو چار حصوں میں بانٹا گیا ہے، اول عبادات یعنی وہ افعال جن کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے تعلق کا اظہار کرتا ہے، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، قربانی، دوسرے: معاشرت یعنی خاندانی اور سماجی زندگی سے متعلق قوانین جیسے والدین اور اولاد کے ایک دوسرے پر حقوق اور ذمہ داریاں، بھائی بہنوں کے حقوق، پڑوسیوں اور ہمسایوں کے حقوق وغیرہ، تیسری قسم معاملات کی ہے، یعنی مالی معاملات کی بنیاد پر دو افراد کے درمیان جو راطہ پیدا ہوتا ہے، اس کے بارے میں شرعی رہنمائی، جیسے: تاجر اور گاہک کا تعلق، مالک اور کرایہ دار کا تعلق، کمپنی اور ملازم کا تعلق وغیرہ، ان میں کس کی کیا ذمہ داریاں ہوں گی اور کن کے کیا حقوق ہوں گے؟ ان کی رہنمائی ، چوتھی قسم اجتماعی احکام کی ہے، جس میں سیاست، ملکی نظم ونسق، امن عامہ، عدلیہ، مجرمین پر سزاؤں کی تنفیذ وغیرہ شامل ہیں، اس چوتھے قسم کے احکام کا تعلق مسلم حکومت سے ہے، بقیہ تینوں قسم کے احکام کے مخاطب پوری دنیا کے مسلمان ہیں، اور طاقت بھر اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

یہ تمام احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم اور دانا ہے، اس کا کوئی فیصلہ حکمت اور مصلحت کے خلاف نہیں ہو سکتا ؛ اس لئے شریعت اسلامی کے ماہرین نے اُن مقاصد ومصالح کو متعین کرنے کی کوشش کی، جن کے گرد شریعت کے احکام گھومتے ہیں، بنیادی طور پر وہ مقاصد پانچ ہیں، اور جتنے احکام شریعت میں پائے جاتے ہیں، وہ بحیثیت مجموعی ان ہی پانچ میں سے کسی میں شامل ہیں، امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ مخلوق سے شریعت کا مقصد پانچ باتیں ہیں: دین کی حفاظت، جان کی حفاظت، عقل کی حفاظت، نسل اور عزت وآبرو کی حفاظت اور مال کی حفاظت، جس عمل سے یہ مقاصد حاصل ہوں، وہ اسلام کی نظر میں مصلحت ہے، اور جن باتوں سے ان مقاصد کو نقصان پہنچے، وہ فساد ہے (المستصفیٰ:۲؍۴۸۲) اور شریعت اسلامی کے ایک بڑے فلسفی اور اسلام کے اصول قانون کے صاحب نظر تجزیہ نگار علامہ ابو اسحاق شاطبیؒ نے لکھا ہے کہ ان مقاصد کے مطلوب ہونے پر پوری امت مسلمہ بلکہ تمام امتوں کا اتفاق ہے، اور اس سے واقف ہونا ضروری ہے (الموافقات: ۱؍۸۳)

ان پانچوں مقاصد پر بے شمار قرآنی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات موجود ہیں، اور اسی پر پورے فقہ اسلامی کی اساس ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دین کی حفاظت تو ضروری ہے ہی؛ لیکن جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ بھی طاقت بھر ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، جہاں ان مقاصد کے متأثر ہونے کا اندیشہ ہو، وہاں پہلے سے احتیاط ضروری ہے، اور جہاں صورت حال بگڑ جائے، شر پسند عناصر کی طرف سے ان میں سے کسی پر حملہ ہو جائے، تو اپنی طاقت کے مطابق شر پسندوں کا مقابلہ اور اپنا دفاع بھی ایک شرعی فریضہ ہے، اگر کوئی جان ومال، عزت وآبرو کے درپے ہو جائے، دینی مقدسات پر حملہ آور ہو تو بچاؤ اور روکنے کی کوشش کرنا یہ بھی بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے، اگر اس بات میں کسی کی جان چلی جائے تو اس کے لئے شہادت کا اجر ہے، اور کسی کا مال چلا جائے تو یہ بہترین صدقہ اور اعلیٰ درجہ کی قربانی ہے، اکثر مقامات پر مسلمان فطری طور پر اس کی کوشش کرتے ہیں، جہاں قانون کی طاقت استعمال کرنا ممکن ہوتا ہے، وہاں پولیس اور عدالت کے ذریعہ دفاع کرتے ہیں، اور جہاں مجبور ہو جاتے ہیں، وہاں جو طاقت میسر ہے، اس کا استعمال کرتے ہیں، جس کی اجازت قانون بھی دیتا ہے، اور شریعت بھی۔

لیکن ملک کے موجودہ حالات میں بہت زیادہ پیشگی احتیاط والی تدبیروں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس طرح ہم فساد کی بہت سی شکلوں کو ٹال سکتے ہیں، جان ومال کے نقصان کو روک سکتے ہیں، اور امن وامان کو قائم رکھ سکتے ہیں، اسی سلسلے میں حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بعض تدابیر ذکر کی جاتی ہیں۔

۱۔کوشش کرنی چاہئے کہ نئی مسجدیں عین گزر گاہ پر رکھنے کی بجائے کسی قدر اندر مسلم آبادی کے درمیان بنائی جائے، جو مسجدیں بن چکی ہیں، ظاہر ہے کہ ان کو اب ہٹایا نہیں جا سکتا ہے، عام گزر گاہ گاہوں پر خاص کر جو ہندو مسلم ملی جلی آبادیوں کے ساتھ لگی ہوئی ہو، شر پسندوں کی طرف سے مسجدوں کی اہانت کا کافی اندیشہ رہتا ہے، بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پورا محلہ غیر مسلم بھائیوں کا ہے، مسلمانوں کے دو تین گھر ہیں، اور وہاں دینی جذبہ کے تحت مسجد بنا دی گئی؛ لیکن اب ان مسجدوں کی حفاظت مشکل ہوگئی ہے، اور وہاں آئے دن اہانت کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، اسی طرح جو مسجدیں عام گزر گاہوں سے متصل ہیں، اگر جگہ کی گنجائش ہو تو کوشش کرنی چاہئے کہ ان مسجدوں کے گرد ایک مضبوط احاطہ بنادیا جائے؛ تاکہ ان کی حفاظت آسان ہو سکے۔

۲۔عدالت کے بعض فیصلوں کا سہارا لے کر بعض ریاستوں میں اذان کے لئے لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر تحدیدات عائد کی گئی ہیں، مثلاََ مائک پر فجر کی اذان دینے کو منع کیا گیا ہے، یا آواز کی ایک خاص حد رکھنے کی ہدایت دی گئی، ہمیں ایسی جگہوں میں قانون کا پاس ولحاظ رکھنا چاہئے، اور جب تک حکومت خود اس میں گفت وشنید کی بنیاد پر ترمیم کے لئے تیار نہ ہو جائے، اپنی چاہت پر اصرار نہیں کرنا چاہئے؛ کیوں کہ مائک پر اذان دینا اور بہت بلند آواز کے ساتھ دور دور تک آواز پہنچانا شریعت کا حکم نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے دور میں تو مائک ایجاد ہی نہیں ہوا تھا، لوگ بغیر مائک کے ہی اذان دیا کرتے تھے، تو اب مائک اور اس میں بلند آواز کے استعمال پر ایسا اصرار نہیں کرنا چاہئے کہ مسجد کی حرمت کے پامال ہونے اور مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچے کا خطرہ پیدا ہو جائے۔

۳۔مسجد بنانا بہت نیکی کا کام ہے، اور مسلمان بستیوں میں مسجدیں ہونی چاہئیں، یہ ہماری دینی شناخت ہے؛ لیکن بازاروں میں اور سرِ راہ یا غیر مسلم کالونیوں میں بہتر صورت یہ ہے کہ مسجد کی بجائے مصلیٰ بنا دیا جائے، اور لوگ وہاں نماز باجماعت ادا کیا کریں، یہ عمارت مسجد کے حکم میں نہیں ہوگی، اس کو وہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی گنجائش ہے اور دوسرے جائز مقاصد کے لئے بھی اس کا استعمال درست ہے، مسجد شرعی کی نیت کرنے کے بعد مسجد کے تمام احکام اس جگہ سے متعلق ہو جاتے ہیں، اور بہت سی دفعہ ان کو برقرار رکھنا اور ان کی حفاظت کرنامشکل ہو جاتا ہے۔

۴۔مسجد اور مدرسہ کی تعمیر میں حکومت اور قانون کی اجازت کو ملحوظ رکھنا چاہئے، جہاں مسجد بنانی ہو، وہاں اس کی قانون ضرورتوں کو پورا کیا جائے، سرکاری انتظامیہ سے اجازت حاصل کی جائے، اور خود تعمیر کے سلسلے میں بھی جو حکومت کے قوانین ہیں ان کو ملحوظ رکھا جائے، یہ نہ صرف مسجد کے لئے ضروری ہے؛ بلکہ مدارس اور دینی مقاصد کے لئے کی جانے والی تمام تعمیرات کے لئے ضروری ہے؛ تاکہ بعد میں نقصان ، رسوائی اور مذہبی مقامات کی اہانت کی نوبت نہ آئے۔

۵۔ملک کا دستور ہمیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے؛ اس لئے ایسا نہیں ہے کہ مدرسہ قائم کرنے کے لئے حکومت کی اجازت ضروری ہو، یااس کا رجسٹریشن کرانا لازمی ہو؛ لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات مناسب ہے کہ کسی ٹرسٹ اور سوسائٹی کے تحت ہی مدارس کا نظام ہو، اس میں قانونی حفاظت بھی ہے، یہ مالی خرد برد اور خیانت کو روکنے کے لئے بھی ضروری ہے اور شریعت میں اجتماعی کاموں کے لئے جو شورائیت مطلوب ہے، اس کے ذریعہ وہ مقصد بھی حاصل ہو سکے گا؛ اس لئے مدارس کے انتظام و انصرام میں شورائیت پیدا کرنی چاہئے، اور اس شورائی نظام کو قائم کرنے کے لئے ان کو رجسٹرڈ کرانا چاہئے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے، یہ خود مدارس کے لئے ہی مفید ہے۔

۶۔ تعلیمی اداروں کے بارے میں حکومت کے کچھ قوانین ہیں، جن کا مقصد طلبہ کے لئے سہولت پیدا کرنا ہے، جیسے کلاس روم کا سائز، کھیل کا میدان، لائبریری، لوگوں کی تعداد کے لحاظ سے بیت الخلاء وغیرہ، یہ قوانین اصلاََ کسی طبقہ کو نقصان پہنچانے کے لئے نہیں بنائے گئے ہیں؛ بلکہ اساتذہ اور طلبہ کی سہولت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں، مدارس کو پہلے سے اس پر عمل پیرا ہونا چاہئے؛ کیوں کہ یہ ہمارے مفاد میں ہیں، یہ اور بات ہے کہ حکومت خود اپنے اسکولوں میں اس معیار کو پورا نہیں کرتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض دفعہ امتیازی طور پر مسلمانوں کے خلاف ان قوانین کا استعمال کیا جاتا ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے ہمارے لئے لاقانونیت کا جواز پیدا نہیں ہوتا ہے، بالخصوص ایسی لاقانونیت جو انجام کار ہمارے ہی لئے نقصان دہ ہو۔

۷۔ اب قبرستانوں پر بھی قبضہ اور اس پر مندر بنانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بڑے شہروں میں قبرستان کی کمی محسوس کی جاتی ہے؛ اس لئے قبرستانوں کی حصار بندی اور جہاں ضرورت محسوس ہو، وہاں چاروں طرف چھوٹی موٹی دوکانوں کی تعمیر؛ تاکہ وہ احاطہ بھی بن جائے، قبرستان کے لئے آمدنی کا ذریعہ بھی ہو جائے اور اس آمدنی کو لاوارث اور غریب مسلمانوں میتوں کی تجہیز وتکفین کے لئے استعمال کیا جائے تو بہتر ہوگا، اس طرح اس کے ذریعہ کئی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

۸۔ جان کی حفاظت کے لئے ایک احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ مسلم محلوں میں آباد ہونے اور اپنی الگ آبادیاں قائم کرنے کی کوشش ہو، اگرچہ اس میں بعض نقصانات کا بھی اندیشہ ہے؛ لیکن زندگی کی حفاظت ان نقصانات سے کہیں زیادہ اہم ہے، اور حدیث میں بھی یہ بات پسند کی گئی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ماحول میں بود وباش رکھنی چاہئے۔ اس میں جان ومال کے علاوہ اپنی تہذیب کی بھی حفاظت ہے۔

۹۔ مسلمانوں کی جو دوکانیں مخلوط آبادی کے محلوں میں ہوں، یا عام راہ گزر پر واقع ہوں، مناسب ہوگا کہ وہ ان کا انشورنس کرا لیں؛ تاکہ کوئی حادثہ پیش آنے پر کچھ نہ کچھ تلافی ہو سکے ، جہاں جان ومال کو سخت خطرہ در پیش ہو، وہاں ہندوستان کے علماء نے انشورنس کرانے کی اجازت دی ہے، اگر واقعی وہ خطرہ پیش آئے تو انشورنس کی پوری رقم ان کے لئے جائز ہوگی، اور اگر ایسا نہیں ہوا اور کسی اور وجہ سے نقصان ہوا تو انشورنس کمپنی کی طرف سے ادا کئے جانے والے پیسوں میں سے اپنے نقصان کے بقدر پیسہ لینا جائز ہوگا اور اس سے زیادہ رقم کو غرباء پر یا رفاہی کاموں میں خرچ کرنا واجب ہوگا؛ مگر اس کا یہ فائدہ ہے کہ ایک غریب تاجر فوری طور پر اپنے روزگار سے محروم نہیں ہو جاتا۔

۱۰۔ جان کی حفاظت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جہاں سے گزرنے میں خطرہ ہو یا خصوصی حالات کی وجہ سے بدمعاشوں اور شرپسندوں کے حملے کا اندیشہ ہو تو ان حالات میں اس راستہ سے گزرنے سے بچا جائے، جیسا کہ ابھی کانوڑ یاترا کی وجہ سے دہلی سے ہریدوار تک مسلمانوں پر حملہ کے بہت سے واقعات پیش آئے، جانیں بھی گئیں ، گاڑیاں بھی جلائی گئیں، اور پیسے بھی لوٹ لئے گئے، جب حالات مخدوش ہوں تو ایسے راستوں سے گزرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے؛ اس لئے خود ہی اس سے بچنا چاہئے۔

۱۱۔ اس وقت مسلمان لڑکوں کی غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادی کے واقعات بھی کثرت سے پیش آرہے ہیں، یہ شادیاں جان اور ایمان دونوں سے محروم کرنے کا باعث بن رہی ہیں، اس کے لئے احتیاطی تدبیر بہت ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ مخلوط تعلیمی اداروں میں مسلمان اپنی بچیوں کو پڑھانے سے گریز کریں اور جہاں ملے جلے ماحول میں لڑکیوں کو ملازمت دی جاتی ہے، وہاں ملازمت کرنے سے بھی روکیں، تعلیم اور ملازمت کا مخلوط ماحول ہی ۸۰؍ فیصد سے زیادہ اس برائی کا سبب ہے، اسی طرح لڑکیوں کو یا تو موبائل یا لیپ ٹاپ نہیں دیں اور اگر کسی خاص ضرورت کی وجہ سے دینا پڑے تو سخت نگرانی رکھیں، مسلسل موبائل چیک کرتے رہیں اور اس کو کُھلا رکھیں ،لاک کرنے سے منع کریں، اس طرح ہم بہت سے ناخوشگوار واقعات کو روک سکتے ہیں۔

۱۲۔ ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے ، جس میں دستور کی رو سے کسی کو بھی اپنے مذہب کی تعلیم دینے کی اجازت نہیں ہے؛ لیکن اس وقت اسکولوں میں مشرکانہ ترانے بھی پڑھائے جا رہے ہیں، ہنومان چالیسہ بھی پڑھایا جا رہا ہے، اور مختلف مشرکانہ رسوم بھی ادا کئے جا رہے ہیں، ان کا حل یہی ہے کہ ہم خود زیادہ سے زیادہ اسکول کھولیں ، مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں، اور جہاں اس میں دشواری ہو، وہاں اچھے معیاری کوچنگ سینٹر قائم کئے جائیں، بچے یہاں سے پڑھ کر پرائیویٹ طور پر یا کسی منظور شدہ اسکول کے واسطہ سے امتحان دیا کریں۔

۱۳۔ سخت افسوس کی بات ہے کہ حکومت جس کا بنیادی کام انصاف قائم کرنا ہوتا ہے، وہ کھلم کھلا ناانصافی اور ظلم پر کمر بستہ ہے، ایک ہی محلہ اور ایک ہی کالونی میں کالونی بنانے والا قانونی تقاضوں کو پورا کئے بغیر پلاٹ بیچتا ہے، ہندو مسلم سب پلاٹیں خرید کرتے ہیں، پھر زندگی بھر کی بچی پونجی کو جمع کرتے ہیں، اور مکان بناتے ہیں، اور فرقہ پرست حکومت اپنے بلڈوزروں کے ساتھ آتی ہے، اور خاص طور پر مسلمانوں کے مکانات کو مشخص کر کے ان کو زمین بوس کرتی ہے، ان حالات میں ضروری ہے کہ جو زمین لی جائے، اچھی طرح اس کی قانونی حیثیت کی تحقیق کی جائے، اور بغیر رجسٹری کے زمین نہیں خریدی جائے، اور پھر تعمیر کی باضابطہ اجازت حاصل کر کے ہی تعمیر کی جائے، تعمیر کے بعد مکان نمبر حاصل کیا جائے اور بجلی کا میٹر اور لائٹ کا اجازت نامہ حاصل کیا جائے۔

غرض کہ ملک کے موجودہ حالات میں ہمیں آپ اپنی حفاظت کی فکر کرنی چاہئے اور ایسی احتیاطی تدبیریں کرنی چاہئے کہ فتنہ وفساد پیش ہی نہ آئیں اور اگر پیش آئے تو پھر اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے پوری جرأت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔
٭٭٭