حیدرآباد

رحمن جامی یادگار تقریب ایوارڈ، مولانا مفتی سید صادق محی الدین، مولانا سید خسرو پاشا اور سید عظمت اللہ حسینی و دیگر کا خطاب

حضرت رحمن جامی نے اپنی مکمل زندگی جو نصف صدی سے زائد عرصے تک اردو کی بقا اور اس کی ترقی کے لیے جدوجہد کرتے رہے حضرت رحمن جامی کی اس جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج ان کے شاگرد نہ صرف شہر حیدرآباد بھارت بلکہ اقطاع عالم میں موجود ہے۔

حیدرآباد: حضرت رحمن جامی نے اپنی مکمل زندگی جو نصف صدی سے زائد عرصے تک اردو کی بقا اور اس کی ترقی کے لیے جدوجہد کرتے رہے حضرت رحمن جامی کی اس جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج ان کے شاگرد نہ صرف شہر حیدرآباد بھارت بلکہ اقطاع عالم میں موجود ہے۔

حضرت رحمن جامی کی یہ خصوصیت تھی کہ جس کو اردو اور شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں رہتا اس کو بھی شاعر بنا دیتے۔

میڈیا پلس گن فاؤنڈری میں شاگردان رحمن جامی کے زیر اہتمام منعقدہ حضرت رحمن جامی یادگار ایوارڈ تقریب سے مخاطب کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی سید صادق محی الدین فہیم صاحب صدر اجلاس نے کہا کہ آج اردو کو نقصان خود اردو دان طبقے سے ہو رہا ہے اور یہ بات اچھے معاشرے کے لیے پریشان کن ہے۔

اردو کی بقا کے لیے ہر اردو داں کو آگے آنا چاہیے اس اجلاس سے مہمان خصوصی حضرت مولانا سید شاہ غلام افضل بیابانی المعروف خسرو پاشا چیئرمین حج کمیٹی تلنگانہ نے کہا کہ حضرت رحمن جامی شخصیت ہما پہلو تھی اور ان کو پڑھنے اور سننے والے دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہے۔

حضرت رحمن جامی نے اردو ادب کو اپنے منفرد اسلوب سے ایک نئی جہت عطا کی محبان رحمن جامی اور بالخصوص شاگردان رحمن جامی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حضرت جامی کے اس مشن کو جاری و ساری رکھے۔

اس موقع پر چیئرمین ریاستی وقف بورڈ سید عظمت اللہ حسینی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت رحمن جامی سے میں صرف ایک مرتبہ ملا ہوں لیکن میری یہ ملاقات یادگار ثابت ہوئی۔

مختصر وقفے کی ملاقات سے میں نے ان کے افکار اور بلند و بالا عزائم سے اس قدر متاثر ہوا کہ آج میں ان کی یادگار تقریب میں شرکت کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں میں تمام مسلمانوں کو حضرت رحمن جامی کے اس شہ نشین کے ذریعے یہ پیغام دے رہا ہوں کہ حضرت رحمن جامی نے زندگی بھر اردو کی خدمت کرتے ہوئے اپنا حق ادا کر دیا اب ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ اردو کی ترقی کے لیے ہم عملی اقدامات کریں۔

اس کی پہلی شروعات خود اپنے مکان سے ہونا چاہیے اپنے بچوں کی ذریعہ تعلیم اردو کا انتخاب کریں میرا تعلق ضلع کریم نگر سے ہے لیکن میرے والدین نے مجھے ساتویں جماعت تک اردو میڈیم سے تعلیم دلوائی اس کے بعد میں اردو کے ساتھ دیگر زبانوں سے بھی اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھا اور آج میں اپنے بچوں کو بھی اردو میڈیم سے تعلیم دلوا رہا ہوں۔

آج ہمارے ذہن میں یہ بات سرایت  کر گئی ہے کہ اردو ذریعے تعلیم سے روزگار کے مواقع حاصل نہیں ہوتے ہم کو یہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب سماج میں اکثریت اردو طبقے کی ہوگی تو حکومت کو مجبورا اردو داں کا سرکاری سطح پر تقرر کرنا لازمی ہو جائے گا لیکن اس کے لیے ہم کو اور ہماری مادری زبان اردو داں کو ایک نئی جہت کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔

میں بحیثیت چیئرمین یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہمارے ادارے اور میری پارٹی سے جب بھی کوئی اردو کی ترقی کے لیے آئے گا میں نہ صرف شخصی طور پر بلکہ ریاست وقف بورڈ اور پارٹی کی طرف سے ہر ممکنہ تعاون کروں گا۔

اس موقع پر پروفیسر ایس اے شکور نے حضرت رحمن جامی کو اپنا خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی دیرینہ رفاقت پر روشنی ڈالی پروفیسر شکور نے کہا کہ حضرت رحمن جامی ایک خوددار اور چٹانی ارادوں کے حامل شخصیت تھے جب وہ کسی کام کا ارادہ کر لیتے تو اس کو پائے تکمیل تک پہنچاتے حضرت رحمن جامی کی اردو کے لیے خدمت رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔

اس پر اثر حضرت رحمن جامی یادگار ایوارڈ تقریب سے مخاطب کرتے ہوئے مولانا حکیم صوفی سید شاہ محمد خیر الدین قادری نے حضرت رحمن جامی کے شاگرد ہونے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت جامی ایک شفیق استاد کے علاوہ اپنے شاگردوں پر پدری شفقت بھی رکھتے تھے اور کبھی اپنے شاگردوں کو کمزور و شرمندہ ہونے نہیں دیتے اور زمانے کی نشیب و فراز سے آگاہی کرتے ہوئے اردو کی خدمت اور اردو کی بقا کے لیے جہد مسلسل کی تاکید کرتے۔

مولانا خیر الدین صوفی نے اپنا سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ایک مرتبہ رحمن جامی سے ملاقات کرتا تو پھر وہ دوبارہ آپ سے ملنے پر مجبور ہو جاتا حضرت رحمن جامی کے انداز گفتگو اور مشفقانہ انداز سے سامعین کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کتنا طویل وقت ہو چکا ہے خیر الدین صوفی نے کہا کہ آج استاد محترم ہمارے بیچ نہیں ہے لیکن ان کی تعلیمات ان کے افکار ان کے کردار اور ان کے اطوار ہمارے لیے مکمل زندگی کا ایک اثاثہ ہے یقینا استاذ محترم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔

اس یادگار ایوارڈ تقریب میں شہر حیدرآباد کے معروف و سر کردہ شخصیات مختار احمد فردین عبدالرب عارف صلاح الدین نیر سردار سلیم ڈاکٹر ہلال اعظمی ڈاکٹر قدوس نورانی نے حضرت رحمن جامی کو خراج عقیدت پیش کیا۔

اس کے علاوہ رحمن جامی کے شاگردان و حیدرآباد کے معروف شعراء ڈاکٹر رحیم رامش شاہنواز ہاشمی طیب پاشاہ قادری محمد فضیل فوز سہیل عظیم تشکیل انور رزاقی نے بھی اپنا منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔

اس موقع پر حضرت مفتی سید صادق محی الدین فہیم پروفیسر رحمت یوسف زئی مختار احمد فردین ایس ایم ہاشمی عبدالکریم فہیم مولانا خیر الدین صوفی صلاح الدین نیر سردار سلیم کو حضرت رحمن جامی یادگار ایوارڈ سے بدست مہمانان خصوصی نوازا گیا۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد محامد ہلال اعظمی ڈاکٹر قدس نورانی ڈاکٹر رحیم رامش میر نثار علی نامی سلیم اسلم نظامی  معین الدین احمر نرملی شاہنواز ہاشمی نذیر نادر فضیل فوز ڈاکٹر طیب پاشا قادری تشکیل انور رزاقی سہیل عظیم محمد یحیی قادری شیخ شریف شیخ سعید سید مقبول سید سراج سعد اللہ خان سبیل محمد عبدالنعیم سبحان صدیقی عبدالرب عارف سید ایوب پاشاہ قادری امان اللہ خان عبد الایفاض مولانا ریاض الدین نقشبندی کو اعتراف خدمات یادگار حضرت رحمن جامی ایوارڈ سے نوازا گیا رات دیر گئے صدر جلسہ کے رقت انگیز دعا پر اس تقریب کا اختتام عمل میں آیا۔

a3w
a3w