حضرت یوسفینؒ کی روحانی خدمات اور زیارت قبور کے فضائل پر مولانا صابر پاشاہ کا معرکہ خطاب
اپنے خطاب میں مولانا صابر پاشاہ نے زور دیا کہ مزاراتِ اولیاء دینِ اسلام میں نور و تجلی کا منبع ہوتے ہیں۔ ان کی زیارت سے دل کو راحت، روح کو سکون اور ایمان کو تازگی حاصل ہوتی ہے۔ شریعت مطہرہ میں زیارتِ قبور کو ایک مستحب عمل قرار دیا گیا ہے جس کا مقصد موت اور آخرت کی یاد دہانی ہے۔

حیدرآباد: تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز، نامپلی کی مسجد کے خطیب و امام، مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے صدر دفتر بنجارہ ہلز روڈ نمبر 12 پر منعقدہ فکری نشست بعنوان "زیارت قبور اور اس کا طریقہ” میں خصوصی خطاب فرمایا۔
اپنے خطاب میں مولانا صابر پاشاہ نے زور دیا کہ مزاراتِ اولیاء دینِ اسلام میں نور و تجلی کا منبع ہوتے ہیں۔ ان کی زیارت سے دل کو راحت، روح کو سکون اور ایمان کو تازگی حاصل ہوتی ہے۔ شریعت مطہرہ میں زیارتِ قبور کو ایک مستحب عمل قرار دیا گیا ہے جس کا مقصد موت اور آخرت کی یاد دہانی ہے۔
انہوں نے زیارت قبور کے مسنون طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قبرستان میں داخل ہوتے وقت دعا "السلام علیکم یا اہل القبور، یغفراللہ لنا ولکم، انتم سلفنا ونحن بالأثر” پڑھنا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ قبر کی جانب پاؤں کی طرف سے جایا جائے اور میت کے چہرے کی سمت کھڑے ہوکر قرآن مجید، سورۂ یٰسین، سورۂ فاتحہ، آیت الکرسی وغیرہ کی تلاوت کی جائے اور تمام اہلِ قبور و مؤمنین کے لیے دعائے مغفرت کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ہر سال شہدائے اُحد کے مزارات پر تشریف لے جایا کرتے اور فرمایا کرتے: "السلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبى الدار”۔ خلفائے راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم بھی اسی سنت پر عمل پیرا رہے۔
مولانا صابر پاشاہ نے فرمایا کہ اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری دینا، ایصالِ ثواب کرنا اور ان کے وسیلے سے دعا کرنا سلف صالحین کا عمل ہے، جو آج بھی عالم اسلام میں جاری و ساری ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ بغداد میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جا کر دعا کرتے تو ان کی حاجات پوری ہو جایا کرتی تھیں۔
مولانا نے سورۂ مریم کی آیت نمبر 96 "ان الذین آمنوا وعملوا الصالحات سیجعل لہم الرحمن ودّاً” کی روشنی میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نیک بندوں کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور یہی صالحین و اولیاء کی مقبولیتِ عامہ کی اصل بنیاد ہے۔
نشست کے اختتام پر مولانا نے حیدرآباد کو "اولیاء کا شہر” قرار دیتے ہوئے حضرات یوسفینؒ کی حیاتِ مبارکہ اور روحانی عظمت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ آپ نے بتایا کہ یہ دونوں عظیم المرتبت بزرگ، حضرت سید شاہ یوسف قادری چشتیؒ اور حضرت سید شاہ شریف الدین قادری چشتیؒ، جنہیں عوام یوسف باباؒ اور شریف باباؒ کے نام سے جانتی ہے، ایک ہی گنبد میں مدفون ہیں۔
ان کا تعلق بالترتیب مصر اور ملک شام کے شہر کنعان سے تھا۔ حج بیت اللہ اور زیارتِ روضۂ رسول ﷺ کے دوران دونوں کی ملاقات ہوئی، اور روحانی مطابقت کے باعث ہمیشہ کے لیے رفیقِ سفر و طریقت بن گئے۔ حضرت شاہ کلیم اللہ شاہجہان آبادیؒ کے دستِ مبارک پر بیعت ہوکر سلسلہ قادریہ و چشتیہ سے فیض یافتہ ہوئے۔
ان دونوں بزرگوں کی کرامت مشہور ہے کہ جب مغل لشکر کے ہمراہ گولکنڈہ آئے تو ایک رات شدید طوفان میں صرف ان کا خیمہ سلامت رہا، چراغ روشن رہا اور وہ قرآن کی تلاوت میں مصروف رہے۔ یہ منظر مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیرؒ نے خود دیکھا، جس کے بعد ان بزرگوں کی روحانی شان و مقام سب پر عیاں ہوگئی۔
حضرت یوسف باباؒ نے پانچ ذی الحجہ 1121ھ کو وصال فرمایا اور حضرت شریف باباؒ نے اسی دن ان کے وصال کی خبر سن کر خود بھی وصال فرمایا۔ دونوں کی تدفین ایک ہی مزار میں عمل میں آئی اور آج بھی ان کی درگاہ مرجع خلائق ہے۔
ہر سال ذی الحجہ کے آغاز میں لاکھوں زائرین ان کے عرس مبارک میں شرکت کرکے روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ اس موقع پر ملک کی اہم شخصیات، عوام و خواص، سیاسی و مذہبی رہنما، اور دیگر معززین شرکت کرتے ہیں۔
یہ دونوں ہستیاں آج بھی اس پیغام کو عام کر رہی ہیں کہ ولایت صرف روحانی برتری ہی نہیں بلکہ امت کی اصلاح، دلوں کی تطہیر اور اخلاقِ نبوی کی عملی تفسیر ہے۔