مضامین

وزیراعظم کاقوم سے خطاب۔مدبرانہ پیغام کی بجائے انتخابی تقریر

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

وزیراعظم نریندر مودی نے 77ویں یوم آزادی کے موقع پردہلی کے لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے جو روایتی خطاب کیا اس میں آئندہ ملک کی ترقی کے بارے میں کوئی واضح اور ٹھوس اقدامات کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی بلکہ ایسا محسوس ہورہا تھا وزیراعظم کوئی انتخابی تقریر کررہے ہیں۔ یوم آزادی کے موقع پر کیا جانے والا خطاب بڑی اہمیت کا حامل ہو تا ہے۔ ملک کی ساری قوم کی نظریں وزیراعظم کے خطاب کی طرف لگی رہتی ہیں۔دنیا کے دیگر ممالک کے رہنماءبھی اس خطاب کے منتظر ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں عوامی فلاح وبہبود کے متعلق کوئی غیر معمولی اقدامات کرنے کا کوئی تیقن نہیں دیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کا یہ ان کی دوسری معیاد کا آخری خطاب تھا۔لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2024کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی ملے گی اور وہ آئندہ یوم آزادی کے موقع پر اپنی حکومت کا رپورٹ کارڈ پیش کریں گے۔یہ بات انہوں نے بڑے وثوق سے کہی کہ وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوجائیں گے۔جب کہ جمہور یت میں عوام مقتدر اعلی ہوتے ہیں۔ کوئی یہ بات یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا ہے آئندہ عام انتخابات میں کس پارٹی کو کامیابی ملے گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی یہ منطق بڑی عجیب و غریب ہے کہ وہی ملک کے آئندہ وزیر اعظم ہوں گے۔حالات تو یہ بتا رہے ہیں بی جے پی کی غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں ملک کے تمام طبقے ناراض ہیں اور اب ان کو مزید حکومت کرنے کا موقع نہیں دیاجاسکتا۔ گزشتہ نو سالہ دور میں جو وعدے کئے گئے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔کسی غریب کے بینک اکاونٹ میں 15لاکھ روپئے کیا 15 سو روپئے بھی حکومت کی جانب سے جمع نہیں کرائے گئے۔سالانہ ہزاروں نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن یہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔خواتین کو با اختیار بنانے کے دعوے کئے گئے لیکن آج بی جے پی کے دور میں خواتین کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔منی پور میں خواتین کو برہنہ کرکے ان کی اجتماعی عصمت ریزی کے بدبختانہ واقعات ہوئے۔ ہریانہ کے علاقہ میوات میں ہندو دہشت گردی کے بعد مسلمانوں پر آج بھی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے وہ اپنی بستیاں چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔حالیہ عرصہ میں ہوئے ان واقعات پر وزیر اعظم نے اپنے یوم آزادی کے خطاب میں کچھ نہیں کہا۔البتہ یہ کہہ دیا کہ منی پور میں امن قائم ہوگیا ہے جب کہ وہاں حالات اب بھی دھماکو ہیں۔ وزیراعظم نے یوم آزادی کے موقع پر جو خطاب کیا وہ دراصل ان کی اپنی خود نمائی کا ایک شاہکار ہے۔انہوں نے اپنے خطاب میں اپنی حکومت کے کارناموں کو مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ 2024کے لوک سبھا الیکشن میں تیسری مرتبہ کامیاب ہونے کے بعد وہ ملک کو اور ترقی کی راہوں پر لے جائیں گے،لیکن 2014میں پہلی مرتبہ کامیابی اور2019میں دوسری مرتبہ مرکز میں حکومت بنانے کے بعد ان کی حکومت نے زمینی سطح پر کیا کام انجام دیے اس کی کوئی تفصیل قوم کے خطاب کے دوران انہوں نے پیش نہیں کی۔وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ ملک میں تین بڑی خرابیاں آگئی ہیں۔ان میں ایک کرپشن، دوسرے موروثی نظام اور تیسرے خوشامدانہ سیاست۔ یہ وہ عناصر ہیں جس نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن کی لعنت نے قومی زندگی کو آلودہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر چھوٹے کام کے لئے بھی رشوت دینا ضروری ہوگیا ہے۔ سرکاری افسران سے لے کر سیاستدان اس میں ملوث ہیں۔لیکن کیا بی جے پی کے قائدین یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ وہ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ اپنے اپ کو ایک منفرد پارٹی کا درجہ دینے والے خود کئی نوعیت کی مالی بدعنوانیوں میں مبتلا ہیں۔ اڈانی گروپ پر وزیراعظم کی نظرالتفات کیا اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ اربوں روپیوں کے پراجیکٹ اس گروپ کو محض وزیراعظم سے قربت کے نتیجہ میں دیے جارہے ہیں۔ عوام کا پیسہ بے دریغ انداز میں چند تجارتی گھروں کو منتقل کردیا جارہا ہے۔کیا یہ کرپشن کی تعریف میں نہیں آتا۔کرناٹک میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو جس کراری شکست سے دوچار ہونا پڑا اس کی ایک وجہ چیف منسٹر اور وزراء کا کرپشن میں ملوث ہونا تھا۔ کرپشن کے خلاف جنگ کرنے کی بات وزیراعظم نے کی تو ہے لیکن کیا وہ اپنے قائدین کے خلاف کارروائی کریں گے جو مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین کی آواز کو دبانے کے لیے ان پر ای ڈی کے چھاپے کرائے جارہے ہیں، لیکن برسراقتدار پارٹی کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ کرپشن کی بڑھتی ہوئی وباء سے ملک کو پاک کرنے کی شدید ضرورت ہے۔یہ لعنت دیمک کی طرح ملک کو چاٹ رہی ہے۔لیکن اس کو ختم کرنے کے لیے جانبداری نہ برتی جائے۔حکمران طبقہ کو چھوٹ اور حکومت سے اختلاف رکھنے والوں کو منی لانڈرنگ کے نام پر ہراساں کرنے سے ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے جرات مندانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے اپنے قومی خطاب میں دوسری خرابی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ موروثیت کے نظام سے بھی ملک ترقی نہیں کرسکا۔موروثی سیاست کی وجہ سے چند مخصوص خاندان اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ وزیراعظم نے اس ضمن میں کسی خاندان یا سیاسی پارٹی کا نام نہیں لیا،لیکن ان کا اشارہ واضح طور پر گاندھی خاندان کی طرف تھا۔یہ بات بار بار مخالف کانگریس حلقوں سے آتی رہی کہ کانگریس میں خاندانی راج چل رہا ہے۔ بادی النظر میں یہ بات کھٹکتی بھی ہے کہ کانگریس کا ریموٹ کنٹرول ہمیشہ ایک ہی خاندان کے ہاتھوں میں کیوں رہا۔ پنڈت نہرو کے بعد ان کی بیٹی اندراگاندھی، ان کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی، اس کے بعد ان کی اہلیہ سونیا گاندھی اور اب ان کے فرزند راہل گاندھی،کانگریس کے کسی اہم عہدہ پر نہ ہوتے ہوئے بھی پارٹی میں ایک ناقابل تسخیر شخصیت مانے جاتے ہیں۔لیکن خاندانی سیاست صرف کانگریس تک محدود نہیں ہے بلک اب اکثر و بیشتر پارٹیاں خاندانی سیاست کے اطراف ہی گھوم رہیں ہیں۔ اس سے اقرباء پروری کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں اور ہر پارٹی میں ورکرس میں بے چینی دیکھی جارہی ہے،لیکن ملک میں ماحول ہی ایسا بن گیا ہے خاندانی نظام سیاست کے افق پر چھاتا جارہا ہے۔ اس کے لیے صرف کانگریس کو مورد الزام ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔ خاندان کے افراد کا عوامی زندگی میں آنا اور خدمت کرنا برا نہیں ہے لیکن ایک خاندان کا پوری پارٹی کو یرغمال بنا لینا یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔یہ بھی ایک قسم کی ایسی متعدد بیماری ہے جو بہت جلد دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ خاندانی سیاست کے خاتمہ کے لیے وزیراعظم نریندر مودی کیا نقشہ راہ اپنے پاس رکھتے ہیں، اس کی کوئی وضاحت انہوں نے اپنے خطاب میں نہیں کی۔ وزیراعظم مجرد ہیں اس لئے بھی انہوں نے جم کر خاندانی سیاست کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کیا۔اگر وہ ازدواجی زندگی گزارتے اور ان کے اہل و عیال ہوتے تو شاید خاندانی سیاست پر وہ اتنی ناراضگی نہیں جتاتے۔خیر یہ ان کا نجی معاملہ ہے کہ انہوں نے اپنا گھر نہیں بسایا۔وزیراعظم کی نجی زندگی میں دخل اندازی کا حق کسی کو نہیں ہے۔ ان کی پالیسوں اور پروگراموں پر بحث کی گنجائش ہے، لیکن انہوں نے شادی کیوں نہیں کی یہ پوچھنا ضروری نہیں ہے۔ ایک مخصوص نظریہ کی خاطر انہوں نے اپنے آپ کو گھر اور خاندان سے دور رکھا اور اپنی پوری زندگی سنگھ کے حوالے کردی۔ وزیراعظم نے اپنی یوم آزادی کی تقریر میں یہ بات بھی کہی کہ وہ عام لوگوں میں سے اٹھ کر آئے ہیں اور اپنی پارٹی میں خاندانی راج نہ ہونے کی وجہ سے اتنے اعلیٰ منصب پر فائز ہوسکے ہیں۔وزیراعظم نریندر مودی نے 77ویں یوم آزادی کے موقع پر کئے گئے خطاب میں تیسری خرابی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ خوشامد پرستانہ سیاست نے بھی اس ملک کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ وزیراعظم کا اشارہ بالواسطہ طور پر ان سیکولر پارٹیوں کی طرف تھا جو اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ بی جے پی کے لیڈر ہمیشہ سیکولر پارٹیوں اور خاص طور پر کانگریس پر یہ الزام لگاتے آئے ہیں کہ یہ پارٹیاں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی خوشامد کرتی آرہی ہیں۔ووٹوں کے حصول کی خاطر یہ پارٹیاں ملک کے مسلمانوں کی منہ بھرائی کرتی ہیں۔یہ دراصل اقلیتوں کو اپنے ووٹ بینک بنائے رکھنے کاایک سیاسی حربہ ہے۔وزیراعظم نے اپنے قومی خطاب میں یہ بھی کہا کہ خوشامد پرستانہ سیاست نے ملک کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔یہ سراسر غلط ہے کہ سیکولر پارٹیوں نے واقعی خوشامد پرست سیاست کو فروغ دیا ہے۔ یہ ایک الزام ہے جو ہر الیکشن کے موقع پر کانگریس پر لگایا جاتا رہا ہے اور اب دیگر سیکولر پارٹیوں پر بھی یہ سوال بی جے پی کی جانب سے کھڑا کردیا گیا۔ اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ خوشامدکی جاتی اور انہیں کوئی خصوصی مراعات کے لائق سمجھا جاتا تو آج مسلمان کیسے حاشیہ پر لادیے گئے۔ کسی شعبہ زندگی میں وہ ترقی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ سیکولر پارٹیاں ان کی منہ بھرائی کرتیں تو تعلیم، معیشت اور سیاست میں مسلمان اس قدر پسماندہ کیونکر ہوتے۔یہ محض مسلمانوں کو بدنام کرنے کا طریقہ ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ مذہبی بھید بھاو¿ پر یقین نہیں رکھتی۔ اس کے نزدیک ملک کے تمام شہری یکساں درجہ رکھتے ہیں۔وہ سب کو قومی ثمرات سے مستفید ہونے کے بھر پور مواقع دیتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی یہ نعرہ دیا کہ ہماری حکومت کا مشن ”سب کا ساتھ،سب کاوکاس اور سب کا وشواس“ ہے۔ نو سال کا عرصہ گزر گیا لیکن یہ نعرہ حقیقت بن کر سامنے نہ آسکا۔ سب کی ترقی اور سب کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی حکومت میں عام آدمیوں کے لیے راحت کا کوئی سامان نہیں ہے۔ یہ حکومت سرمایہ داروں کے خزانے بھرنے کے لیے غریبوں کا خون چوس رہی ہے۔ دیگر پارٹیوں پراقلیتوں کے تئیں خوشامد پرستی کا الزام لگانے والے یہ دیکھیں کہ ان کے دور میں اقلیتیں کس قدربے چینی اور اضطراب کی زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئیں۔ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم کردیا جارہا ہے۔ ان کے خلاف ماورائے قانون کاروائیاں ہو رہی ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں ان کی املاک زمین دوز کردی جارہی ہیں۔بغیر کسی قانونی نوٹس کے کسی کے گھر یا دکان پر بلڈوزر چلا دینا کیا یہی قانون کی حکمرانی کہلاتی ہے۔لیکن اس آزاد اور جمہور ی ملک میں یہ سب دن کے اجالے میں ہورہا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کا77واں جشن تو منا لیا گیا اور وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنے کارناموں کی لمبی فہرست پیش کرکے قوم کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گزشتہ نو سال میں ان کی حکومت نے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ اب ہندوستان دنیا کے نقشے پر ایک زبردست طاقت بن کر ابھرا ہے۔ وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ وہ ہندوستان جو تاریخ کے کسی دور میں سونے کی چڑیا کہلاتا تھا 2047میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لے گا۔2047 میں ہندوستان کی آزادی کے سو سال پورے ہوجائیں گے۔ وزیراعظم کا یہ خواب پورا ہو یہ ہر ہندوستانی کی خواہش ہے، لیکن اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے وہ عزم و حوصلہ کی ضرورت ہے جو ہندوستان کی آزادی کے دوران مجاہدین آزادی میں تھا۔ محض جملوں کی ادائیگی سے کانوں کو خوش کیا جاسکتا ہے لیکن قوموں کی تقدیر نہیں بدلی جاسکتی۔ ہندوستان آزادی کے سات دہے مکمل کرنے کے بعد جس چوراہے پر کھڑا ہے، اس میں اتنا آسان نہیں کہ اندرونی خلفشار کو رکھتے ہوئے عالمی سطح پر اپنی قیادت کو منواسکے۔ اس کے لیے ملک کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے لیے وزیراعظم کو ملک کی ساری عوام کواپنے اعتماد میں لے کر ایک ایسا سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا جہاں ہر فرد اپنے آپ کو آزادمحسوس کرے اور اسے کسی قسم کی ناانصافی یا جانبدارانہ رویہ کا خوف نہ ہو۔باہمی اعتماد کی فضاء کے ذریعہ ہی ملک میں آزادی اور جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے حکومت کو پیش قدمی کرنی ہوگی۔ملک کے شہریوں کو آزادی کے ثمرات سے محروم کرکے کوئی حکومت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور بہت جلد ساری دنیا بھی اس کی قیادت کو تسلیم کرلے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی کی یہ خوش قسمتی رہی کہ انہوں نے دسویں مرتبہ بحیثیت وزیراعظم کے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کیا۔اس سال ان کا خطاب اس لحاظ سے الوداعی رہا کہ آئندہ سال اگست سے پہلے عام انتخابات ہونے والے ہیں۔لوک سبھا الیکشن کے بعد حکومت کون بنائیں گا یہ کہنا قبل از وقت ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم 77ویں یوم آزادی کے اپنے تاریخی الوداعی خطاب میں قوم کو ایک ایسا راستہ دکھاتے جو ملک میں سچائی اور عدل وانصاف کی راہ ہموار کرتا اور جس سے ملک میں امن و بھائی چارہ کی فضاء بنتی،لیکن افسوس کہ وزیراعظم نے اس موقع کو گنوادیا اور آنے والے الیکشن کو سامنے رکھتے ہوئے انتخابی انداز کی تقریر کرڈالی جس میں سوائے جملہ بازیوں کے کچھ نہیں تھا۔

a3w
a3w