شمالی بھارت

فرقہ واریت ملک کی بربادی کی پہلی سیڑھی:مولانا ارشد مدنی

جمعیتہ علماء ہند فرقہ واریت کو ملک کی بربادی کی پہلی سیڑھی مانتی ہے جو لوگ پیار محبت کی جگہ نفرت کے بیج بو رہے ہیں وہ صرف اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اپنی گوٹیاں کھیل رہے ہیں۔

لکھنؤ: ملک میں مسلمانوں میں خاصی رسوخ رکھنے ولی ملی و سماجی تنظیم جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فرقہ واریت کو ملک کی بربادی کی پہلی سیڑھی قرار دیتے ہوئے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ صرف محبت اور بھائی چارے کو فروغ دین نفرت اور دوری سے اجتناب کریں۔

متعلقہ خبریں
مسلم تحفظات کے30 سال کی تکمیل، محمد علی شبیر کو تہنیت پیش کی جائے گی:سمیر ولی اللہ
سیاسی جماعتیں ہمیں نظر انداز کر رہی ہیں، علی گڑھ کے اقلیتی رائے دہندوں کا احساس
صدر جمہوریہ کا آج دورہ، نلسار کے کانوکیشن میں شرکت متوقع
فون ٹیاپنگ کیس کی تحقیقات میں حیران کن پہلوؤں کا انکشاف
رئیل اسٹیٹ ونچرکی آڑ میں چلکور کی قطب شاہی مسجد کو شہید کردیاگیا: حافظ پیر شبیر احمد

مولانا مدنی نے مبینہ طور سے’لوجہا’ کا ذکر کرتے ہوئے مسلم لڑکیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں الگ اسکول کھولنے کی پرزور وکالت کی۔ مولانا مدنی نے جمعرات کو جمعیت کی مشرقی یوپی کی 37ضلع اکائیوں کے سمیلن سے خطاب کرتے ہوئے کہا’ یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے دوری اور نفرت کا نظریہ آزادی کے بعد پیدا ہوا اور وہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔

جمعیتہ علماء ہند فرقہ واریت کو ملک کی بربادی کی پہلی سیڑھی مانتی ہے جو لوگ پیار محبت کی جگہ نفرت کے بیج بو رہے ہیں وہ صرف اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اپنی گوٹیاں کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا’ ہم سیاسی پارٹیوں کو بھی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا نہیں کہ وہ پیار،محبت کی ہی تشہیر کریں۔ نفرت اور دوری کا نہیں۔ ملک کی بھلائی اسی میں پنہاں ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیتہ نے مسلم لیگ کے تقسیم کے نظریہ کو بھی قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا’ جب ملک آزادی کی طرف بڑھ رہا تھا تب انگریزوں نے ملک کی تقسیم ک ایک بیج بویا۔ انہوں نے مسلم لیگ کے دل و دماغ میں یہ بات پیدا کی ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہیں گے۔

لیکن جمعیتہ علماء ہند نے ان کے اس نظریہ کو کبھی قبول نہیں کیا۔ ہم نے مسلم لیگ کی مخالفت کی۔ بہت ظلم کئے گئے لیکن ہم نے جو نظریہ اپنا تھا اس سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا’ ہم آج بھی فرقہ پرستی کو قبول نہیں کر سکتے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا لگے لیکن ملک تو پیار محبت سے ہی چلے گا۔ ملک نفرت سے نہیں چل سکتا۔ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم یہیں پیدا ہوئے ہیں اور یہیں مریں گے۔ ہم نے آپ سب کو یہی پیغام دینے کے لئے یہاں بلایا ہے۔

مولانا مدنی نے مسلمانوں سے ملک کی موجود ہ صورتحال میں صبر سے کام لینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا’ کوئی آگ لگا رہا ہے تو لگائے۔ کوئی گالی دے رہا ہے تو دیتا رہے۔ سوال یہ ہے کہ میں اور آپ اپنی زندگی کیسے گزاریں۔

جیسا کہ اللہ اور رسول کا پغام ہے کہ مسلمان دنیا کے ہر آدمی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ چاہئے سامنے والا کو مذہب کوئی بھی ہو۔ آپ فرقہ پرست ذہنیت کی فرقہ پرستی سے متاثر نا ہوں۔ اللہ نے ہم سب کے لئے فرض کیا ہے کہ ہم ایک۔ دوسرے کو بھائی سمجھیں اور ان کا ساتھ دیں۔ چاہئے سامنے والے کا مذہب کوئی بھی ہو۔

مبینہ لوجہا کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ انہوں نے 80سال تک یہ لفظ نہیں سنا تھا۔ یہ انہیں لوگوں کا ایجاد کیا ہوا لفظ ہے جو ملک کے اندر نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا’ ہم مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ اپنی بچیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں الگ اسکول کھولیں تاکہ مسلمانوں پر لو جہاد کا الزام لگا کر اس کی آڑ میں ان کی بیٹیوں کے ساتھ غلط کرنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو روکا جاسکے۔

انہوں نے مدرسے میں جدید تعلیم کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ مسلم قوم کو جہاں اچھے عالموں کی ضرورت ہے وہیں بہترین بیرسٹر، ڈاکٹر اور پروفیسر کی بھی ضرورت ہے۔ لکھنؤ کے سنی انٹر کالج میں منعقد ہوئے اس سمیلن میں ریاست کے 37اضلاع کے تقریبا 1000اراکین نے شرکت کی۔ سمیلن میں آٹھ مختلف تجاویز کو بھی منظور دی گئی۔