سیاستمضامین

گورنمنٹ آرڈر(29)مورخہ 17؍مارچ2023ء اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ اراضیات پر تعمیر شدہ مکانات اور ملحقہ ا راضی پر لاگو نہیں ہوسکتامنسوخ قانون اور سپریم کورٹ کے ونائک کاشی ناتھ شِلکر فیصلہ کی روشنی میں قابضین سے قیمت وصول نہیں کی جاسکتی

٭ گورنمنٹ ۱اراضیات پر قابضین سے قیمت وصول کی جاسکتی ہے۔ ٭ گورنمنٹ اراضیات اور سیلنگ میں فاضل شدہ اراضیات میں واضح فرق ہے۔ ٭ گورنمنٹ عوام کو نادان سمجھ کر من مانی قیمت وصول نہیں کرسکتی۔ ٭ فاضل قرارشدہ اراضی پر تعمیر مکان کے مالکین کو درخواستیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ ٭ قانون کے مطابق مارچ2008ء سے قبل کی تاریخ سے جو بھی قابض ہے وہی حقیقی مالک ہے۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

رواں کالم کے ذریعہ اس زیرِ بحث مسئلہ پر اس سے پہلے بھی متعدد بار روشنی ڈالی گئی اور مکمل تفصیل کے ساتھ تمام ضروری ملومات فراہم کی گئی تھیں جس کی وجہ سے قابضین فاضل اراضیات بڑی حد تک مستفید ہوئے اور انہیں اطمینان حاصل ہوا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے فاضل اراضیات پر تعمیر مکانات کی باقاعدگی کی درخواستیں پیش نہیں کیں۔ لیکن آج ایک ایسی نئی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ اگر قابضین فاضل اراضیات خصوصاً ٹولی چوکی‘ بنڈلہ گوڑہ ‘ بنجارہ ہلز کے مالکین اراضی نئے گورنمنٹ ا ٓرڈر 29 مورخہ17مارچ 2023ء کے جال میں پھنس جائیں اور قانونی معلومات سے غفلت کا شکار ہوں تو بلا وجہ معقول ان کے لاکھوں روپیہ برباد ہوجائیں گے۔ لہٰذا ایک بار پھر اس حساس مسئلہ پر ضروری قانونی معلومات فراہم کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ ایسے متاثر حضرات کو بھاری نقصانات سے محفوظ کیا جاسکے۔
ایک بے مقصد‘ بے فیض اور سیاسی اغراض کے حصول کی خاطر اربن لینڈ سیلنگ قانو 1976ء میں کانگریس حکومت کے دور میں منظور ہوا تھا جس کی رو سے شہری علاقوں میں ملکیتِ اراضی کی حد مقرر کی گئی تھی جو اس وقت شہر حیدرآباد میں ایک ہزار مربع میٹر تھی ‘ مابقی اراضی فاضل اراضی قراردی جاتی تھی اور ایک پنچ نامہ کے بعد فاضل اراضی قراردی جاتی تھی اس غرض کے حصول کی خاطر شہر حیدرآباد میں صرف تین عہدیدار مقرر کئے گئے تھے اور ایک اسپیشل آفیسر اربن لینڈ سیلنگ کا تقرر کیا گیا تھا۔ شہر اور اطراف میں ہزاروں ایکر اراضیات کا سروے ناممکن تھا لہٰذا دفتر میں بیٹھ کر ہی ساری کارروائیاں کی گئیںاور پٹہ اراضیات کو فاضل اراضیات کے زمرے میں ڈال دیا گیا۔ اس ضمن میں اس دور میں معلومات فراہم کی گئیں تھیں لیکن مالکین اراضی نے اس اڈوائزری کا کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ 2002ء میں گورنمنٹ آف آندھرا پردیش نے گورنمنٹ آرڈر455 جاری کیا تھا جس میں ایسی فاضل اراضیات پر قبضوں کی باقاعدگی کا حکم جاری کیا گیا جس میں قیمت مقرر کی گئی تھی جو بڑھتے بڑھتے 2005ء میں چالیس ہزار روپے فی مربع گز مقرر ہوئی۔ کچھ لوگوں نے درخواستیں پیش کیں اور بہت ساروں نے خاموشی اختیار کی ۔ حکومت کے پاس اتنا بھاری ا سٹاف نہیں تھا جس کی وجہ سے اس ضمن میں زور زبرستی کی جاسکتی لیکن بات جہاں تھی وہیں رہی۔
چونکہ یہ قانون اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا تھا یعنی فاضل اراضیات کی بے زمین لوگوں میں عادلانہ تقسیم نہیں ہوئی تھی اور فاضل اراضیات فروخت ہورہی تھیں تو بی جے پی حکومت نے 1999ء میں اس قانون کو منسوخ کردیا اور ریاستی حکومتوں کو اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو اس قانون کو لاگو کریں ورنہ نہیں۔ لیکن 2008ء میں حکومتِ آندھرا پردیش نے بھی ریاستِ آندھرا پردیش میں اس قانون کو لاگو کردیا قانون کی رو سے جو شخص بھی قانون پاس ہونے کی (CUTOFF DATE) سے قبل کی اراضی پر قابض ہے اور اس نے فاضل اراضیات پر مکان تعمیر کرلیا ہے اور وہاں رہائش پذیر ہے‘ وہی شخص اس فاضل اراضی کا مالک ہے۔ لیکن ایسی اراضی پر حکومت کا مسلمہ قبضہ ہے یعنی حکومت کے پاس Actual Physical Possession ہے اور اس کا واضح دستاویزی ثبوت موجود ہے تو ایسی اراضی فاضل قرارشدہ اراضی قراردی جائے گی۔
لیکن اب حکومتِ تلنگانہ نے حکومت کے خزانے کو بھرنے کی خاطر یہ نرالی اسکیم نکالی ہے جو ایک گورنمنٹ آرڈر29 کی شکل میں نمودار ہوئی۔ اس گورنمنٹ آرڈر کے مطابق اگر آپ فاضل قرارشدہ اراضی کے کسی حصہ پر قابض ہیں تو آپ کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی جس کا معیار گورنمنٹ کی جانب سے مقرر کردہ قیمت ہوگا جو کہ رجسٹری کی غرض سے کی گئی ہے۔
اگر آپ کا مکان کسی فاضل اراضی کے ٹکڑے پر بسا ہوا ہے‘ یا آپ نے جس کو بذریعہ نوٹری یا رجسٹری خریداہو اور آپ اس میں مقیم ہیں‘ تو آپ کو درجِ ذیل قیمت رقبہ کے مطابق ادا کرنی ہوگی۔
-1 اگر رقبہ اندرون250 مربع گز ہو تو سرکاری قیمت کا 50فیصد ادا کرنا ہوگا۔
-2 اگر آپ کا گھر یا اراضی 250 مربع گز سے زائد اور 500 مربع گز سے کم ہو تو آپ کو سرکار کی جانب سے مقرر کردہ قیمت کا75فیصد ادا کرنا ہوگا۔
-3 اگر رقبہ اراضی 500 مربع گز یا اس سے زیادہ ہو تو آپ کو سرکاری قیمت کا صد فیصد یعنی 100فیصد ادا کرنا ہوگا۔
حکومت نے یہ مہربانی ضرور کی ہے کہ درخواست داخل کرتے وقت قیمت کا 25فیصد ادا کرنا ہوگا۔
فرض کیجئے آپ بنجارہ ہلز کے علاقہ زہرہ نگر میں رہتے ہیں اور وہ اراضی کا ٹکڑا جس پر آپ کا مکان موازی300 مربع گز ہے ۔ یہ قطعۂ اراضی آپ کی زرخرید ہے جس پر آپ نے ایک مکان تعمیر کیا ہے۔ اس مکان سے ہی آپ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور اس گھر میں ا ٓپ کی کم از کم دو نسلیں پیدا ہوئیں ا ور ان کے برتھ سرٹیفکیٹ میں اسی مکان کا نمبر ہے‘ آپ اس مکان سے اپنی بینک اکاؤنٹ چلاتے ہیں اور اس گھر کے پتہ پر آپ کا راشن کارڈ ہے ۔ الکٹریسٹی بل اور پانی کا بل بھی اسی گھر کے پتہ پر آتا ہے‘ آپ اس گھر کا پراپرٹی ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ آپ کے پاس ایک رجسٹر شدہ بیع نامہ بھی ہے‘ پھر بھی آپ اس زمین کے مالک نہیں۔ اب آپ کو اس مکان کا مالک بننے کے لیے یہ کام کرنے ہوں گے۔
یہاں سرکاری قیمت 60 ہزار روپیہ فی مربع گز ہے۔ لہٰذا آپ کو60 ہزار روپیہ کا 75فیصد یعنی صرف ایک کروڑ35لاکھ روپیہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ فی الوقت درخواست پیش کرتے وقت آپ کو34 لاکھ روپیہ ادا کرنے پڑیں گے۔ مابقی رقم آپ سے بعد میں وصول کی جائے گی۔
حکومت اربن لینڈ سیلنگ قانون میں فاضل قرارشدہ اراضی پر اپنا حق جمارہی ہے جبکہ اس اراضی پر آپ کا قدیم قبضہ ہے ۔ یا کم از کم مارچ2008ء سے پہلے کا ہے۔
حکومت کا یہ ا قدام جس میں اربن لینڈ سیلنگ قانون میں فاضل قرارشدہ اراضیات کی قیمت وصول کی جارہی ہے یکسر غیر قانونی ہے۔ حکومت کو ایسا کوئی اختیار نہیں۔ 1999ء میں قانون منسوخ ہوگیا جس کو حکومت آندھرا پردیش نے2008ء میں تسلیم کرلیا۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے جس کی قیمت طلب کی جارہی ہے۔
سپریم کورٹ نے اس ضمن میں ایک واضح نظیر قائم کی ہے ۔ مقدمہ کا نام ’ ونائک کاشی ناتھ شلکر‘ ہے اپیل نمبر2615/2012 ‘ اس فیصلہ کو جسٹس آر۔ایم۔لودھا اور جسٹس ایچ۔ایل۔ گوکھلے نے صادر کیا۔ اس مقدمہ کی تقلید کرتے ہوئے تلنگانہ ہائیکورٹ نے نائل لمیٹیڈ کمپنی کے خلاف گورنمنٹ کی نوٹس کو کالعدم قراردیا جس میں زائد از22000 مربع گز اراضی پر حکومت نے اپنی ملکیت کا دعویٰ یہ کہہ کر کیا تھا کہ متذکرہ اراضی فاضل اراضی کے زمرے میں ہے جبکہ یہ کمپنی اس زمین پر 1990ء سے قابض ہے اور اس اراضی پر ایک فیکٹری قائم ہے۔
اس فیصلہ کا لبِ لباب یہ ہے کہ جوشخص یا کمپنی فاضل اراضی پر 2008ء یا 1999ء سے قابض ہے وہی اس اراضی کا مالک ہے کیو ںکہ ایسی اراضیات پر حکومت کا Actual Phycical Possessin نہیں ہے ۔ اگر آپ کی اراضی یا مکان پر بھی حکومت کا مکمل قبضہ ہے تو آپ درخواست دے سکتے ہیں۔
اس آرڈر کا اجراء دراصل ایک چال ہے ۔ حکومت ایسی اراضیات کو اپنی بتاکر بھاری ظاہر کرکے گورنمنٹ آرڈر جاری کررہی ہے جو کہ قانون اور روحِ انصاف کے خلاف ہے۔ لہٰذا تمام ایسے حضرات خصوصاً ٹولی چوکی‘ بنجارہ ہلز‘ بنڈلہ گوڑہ‘ یوسف گوڑہ‘ اور دیگر علاقہ جات میں فاضل اراضیات پر مقیم ہیں‘ انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی کے بہکاوے میں آنے کی ضرورت ہے اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو اور کسی بھی سمت سے ایسا دباؤ ڈالا جارہا ہے تو درجِ ذیل ہیلپ لائن پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
HELPLINE – 040-23535273 – 9908850090
اس بلا سے چھٹکارہ پارنے کا واحد حل
حکومت۔ کلکٹر اور تحصیلدار کے نام قانونی نوٹس کا اجراء
ہر غیر قانونی عمل کو عدالت میں یا قانونی نوٹس کے ذریعہ چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ اوپر لکھا گیا متذکرہ گورنمنٹ آرڈر29 قانون ۔ انصاف اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی میں جاری کیا گیا ہے‘ اس کی کوئی قانونی اہمیت باقی نہیں رہی۔ لہٰذا تمام ایسے حضرات جن کے مکانات اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل اراضیات پر تعمیر ہوئے ہیں یا نہیں خریدا گیا ہے‘ اپنی جائیدادوں کے تحفظ کی خاطر ایک قدم خود آگے بڑھ کر حکومت ‘ ضلع کلکٹر اور متعلقہ تحصیلدار کے نام قانونی نوٹس جاری کرتے ہوئے مطالبہ کرسکتے ہیں کہ متذکرہ گورنمنٹ آرڈر سے اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ اراضیات سے مستثنیٰ رکھا جائے اور اگر اس ضمن میں کوئی زور زبردستی کی گئی تو ہائیکورٹ سے بذریعہ رٹ رجوع ہونے کا حق رہے گا۔ قانونی نوٹس میں مکمل قانونی موقف کو ظاہر کرنے کی ضرورت ہوگی اور کہنا ہوگا کہ متذکرہ گورنمنٹ آرڈر کا اطلاق ہماری جائیداد پر نہیں ہوگا۔
گورنمنٹ اراضیات کی حکومت قیمت وصول کرسکتی ہے
حکومت کو مکمل حق حاصل ہے کہ گورنمنٹ اراضیات پر قابض افراد سے درخواستیں طلب کرکے اراضی کی مکمل قیمت طلب کرسکتی ہے ۔ گورنمنٹ اراضی اور اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ ا راضی میں ایک واضح فرق ہے۔
یہ سہولت ان لینڈ گرابرس ‘ سیاست دانوں اور بارسوخ افراد کو دی جارہی ہے جو گورنمنٹ اراضی پر قابض ہیں یا قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی گورنمنٹ اراضی کی حقیقی قیمت ایک لاکھ روپیہ فی گز ہو تو اس گورنمنٹ آرڈر کی وجہ سے وہی اراضی ایسے قابض افراد کو محض دس بیس ہزار روپیہ فی مربع گز میں حاصل ہوجائے گی اور آنِ واحد میں ان کی دولت میں کروڑوں روپے اضافہ ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قبضہ کی تاریخ2022ء کے آس پاس بتائی گئی ہے ۔ یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ حکومت خود اس عمل میں شامل ہے اور سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
آپ نے دیکھا کس طرح ایک خاتون تحصیلدار نے مہیشورم علاقہ میں دھاندلی کی اور آج تک اس کو گرفتار نہ کیا جاسکا۔ یہ سمجھا جائے گا کہ اس بدعنوان خاتون عہدیدار حکومت کی سرپرستی کے زیرِ اثر ایسی دھاندلیاں کررہی ہے۔
یہاں اس بات کا بھی تذکرہ ضروری ہے کہ یہ گورنمنٹ آرڈر شہر اور اضلاع کے ممبرانِ اسمبلی کی نمائندگیوں کی وجہ سے جاری کیا گیا ۔ آپ سب کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰
7

a3w
a3w