دہلی

شرجیل امام  اور آصف اقبال تنہا ‘ جامعہ تشدد کیس میں ڈسچارج

عدالت نے ہفتہ کے دن 11 افراد بشمول طلبا کارکنوں شرجیل امام اور آصف اقبال تنہا کو یہ کہتے ہوئے جامعہ نگر تشدد کیس سے ڈسچارج کردیا کہ دہلی پولیس اصل خاطیوں کو پکڑ نہیں پائی اور اس نے ملزمین کو ”قربانی کا بکرا“ بنایا۔

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے ہفتہ کے دن جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب ِ علم شرجیل امام اور شریک ملزم آصف اقبال تنہا کو جامعہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) میں دسمبر 2019 کے پرتشدد واقعات سے متعلق کیس میں ڈسچارج کردیا۔

متعلقہ خبریں
عمر خالد کی درخواست ِ ضمانت کی آج سماعت
عمرخالد کی درخواست ضمانت کی سماعت ملتوی
شرجیل امام کی درخواست ضمانت کی جنوری میں سماعت
طالب علم کو زدوکوب کا واقعہ، ٹیچر کے خلاف مقدمہ درج
کجریوال سنگین عارضہ میں مبتلا نہیں، درخواست ضمانت مسترد

شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والوں اور پولیس والوں میں جھڑپ کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ڈسچارج کا حکم ایڈیشنل سیشن جج ساکیت کورٹ ارول ورما نے جاری کیا۔ شرجیل امام کو جیل میں رہنا پڑے گا کیونکہ وہ 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات کیس میں یو اے پی اے کے تحت ملزم ہے۔

 پی ٹی آئی کے بموجب عدالت نے ہفتہ کے دن 11  افراد بشمول طلبا کارکنوں شرجیل امام اور آصف اقبال تنہا کو یہ کہتے ہوئے جامعہ نگر تشدد کیس سے ڈسچارج کردیا کہ دہلی پولیس اصل خاطیوں کو پکڑ نہیں پائی اور اس نے ملزمین کو ”قربانی کا بکرا“ بنایا۔

عدالت نے تاہم ایک ملزم محمد الیاس کے خلاف الزامات وضع کرنے کا حکم دیا۔ ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے کہا کہ چارج شیٹ اور 3 ضمنی چارج شیٹس کے معائنہ کے بعد یہ عدالت اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ پولیس حقیقی خاطیوں کو پکڑنہیں سکی۔ اس نے دوسروں کو قربانی کا بکرا بنایا۔

 جج نے کہا کہ مقام احتجاج پر کئی لوگ جمع تھے۔ ہجوم میں بعض غیرسماجی عناصر ہوسکتے ہیں جنہوں نے ماحول خراب کیا ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ الیاس کی تصاویر میں اسے ایک جلتا ٹائر پھینکتا دیکھا جاسکتا ہے۔

 پولیس گواہوں نے اس کی باقاعدہ شناخت کی لہٰذا اس کے خلاف الزامات وضع ہوں گے۔عدالت نے کہا کہ ملزمین صرف وہاں موجود تھے۔ ان کے خلاف ایسا کوئی ثبوت نہیں جن سے ان پر انگلی اٹھتی ہو۔ انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں۔

 ایسا کوئی عینی شاہد بھی نہیں جو پولیس کے موقف کی تائید کرے۔ اس کے علاوہ جہاں احتجاج ہورہا تھا وہاں کوئی امتناعی احکامات نافذ نہیں تھے۔