حیدرآباد

سرسید احمد خاں — علم، عقل اور اصلاحِ قوم کے علمبردارڈاکٹر عاصم ریشماں، جنرل سکریٹری لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کا بیان

لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی جنرل سکریٹری محترمہ ڈاکٹر عاصم ریشماں نے کہا کہ سر سید احمد خاں برصغیر ہند و پاک کی اُن عظیم شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی علم دوستی، بصیرت، اصلاحی سوچ اور عملی جدوجہد سے ملتِ اسلامیہ کو ایک نئی فکری سمت عطا کی۔

حیدرآباد: لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی جنرل سکریٹری محترمہ ڈاکٹر عاصم ریشماں نے کہا کہ سر سید احمد خاں برصغیر ہند و پاک کی اُن عظیم شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی علم دوستی، بصیرت، اصلاحی سوچ اور عملی جدوجہد سے ملتِ اسلامیہ کو ایک نئی فکری سمت عطا کی۔ وہ صرف ایک مصلح یا معلم نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت مفکر تھے جنہوں نے تعلیمی، سماجی، سیاسی، ادبی اور مذہبی میدانوں میں گہرے اثرات چھوڑے۔

متعلقہ خبریں
مثالی پڑوس، مثالی معاشرہ جماعت اسلامی ہند، راجندر نگر کا حقوق ہمسایہ ایکسپو
عالمی یومِ معذورین کے موقع پر معذور بچوں کے لیے تلنگانہ حکومت کی مفت سہولتوں کا اعتراف مولانا مفتی صابر پاشاہ
تحفظِ اوقاف ہر مسلمان کا مذہبی و سماجی فریضہ: ڈاکٹر فہمیدہ بیگم
محکمہ تعلیم کے سبکدوش اساتذہ کو شاندار اعزاز، ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
دعا اللہ کی قربت کا دروازہ، مومن کا ہتھیار ہے: مولانا صابر پاشاہ قادری

ڈاکٹر عاصم ریشماں نے کہا کہ 1817ء میں دہلی میں پیدا ہونے والے سر سید نے ابتدا میں عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی اور ملازمت کے ساتھ علمی و تحقیقی مصروفیات جاری رکھیں۔ ان کی ابتدائی تصانیف میں آثارالصنادید، جام جم، تحفۃ الحسن، کلمۃ الحق اور جلاء القلوب شامل ہیں، جن میں ان کی علم دوستی اور دینی رجحانات نمایاں نظر آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب پورا ملک مایوسی کا شکار تھا، تو سر سید نے مسلمانوں کے لیے نئی فکری راہ متعین کی۔ انہوں نے قوم کی پسماندگی کا سبب جہالت کو قرار دیا اور تعلیم کو نجات کا واحد ذریعہ بتایا۔ یہی فکر بعد میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد بنی، جس نے برصغیر کے مسلمانوں کے فکری اور تعلیمی افق کو یکسر بدل دیا۔

ڈاکٹر عاصم نے مزید کہا کہ 1875ء میں سر سید نے محمدن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں اُبھرا۔ یہ ادارہ صرف تعلیم کا مرکز نہیں بلکہ مسلمانوں کی فکری بیداری اور ترقی کی علامت بن گیا۔ ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض روزگار نہیں بلکہ عقل و شعور کی تربیت اور قومی شعور کی بیداری تھا۔

انہوں نے بتایا کہ سر سید احمد خاں نے اردو نثر کو نیا انداز دیا۔ انہوں نے زبان کو تصنع و تکلف سے پاک کر کے عام فہم اور مؤثر بنایا۔ ان کا رسالہ تہذیب الاخلاق اصلاحی صحافت کا پہلا سنگ میل ثابت ہوا۔ ان کے نزدیک ادب کا مقصد قوم کی اصلاح اور انسانی تربیت ہے۔

ڈاکٹر عاصم ریشماں نے کہا کہ سر سید نے جدید سائنس اور دینی فکر کے درمیان ایک پُل قائم کیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ معاون ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو جدید علوم کے ساتھ دینی شعور حاصل کرنے کی تلقین کی۔

ان کی اہم تصانیف میں تبیین الکلام، اسبابِ بغاوتِ ہند، خطباتِ احمدیہ، سفرنامۂ لندن، احکامِ طعام اہلِ کتاب اور تہذیب الاخلاق شامل ہیں۔

آخر میں لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے چیئرمین ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ نے کہا کہ آج جب دنیا فکری انتشار، مذہبی انتہاپسندی اور سماجی ناہمواریوں سے دوچار ہے، سر سید کے نظریات پہلے سے کہیں زیادہ قابلِ عمل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سر سید کے تعلیمی فلسفے کو نئی نسل تک پہنچایا جائے تاکہ نوجوان صرف ڈگری یافتہ نہیں بلکہ علم و عمل سے مزین، اخلاقی و فکری طور پر باشعور شہری بن سکیں۔

ڈاکٹر صابر پاشاہ نے کہا کہ “سر سید کا جلایا ہوا چراغِ علم آج بھی روشنی بانٹ رہا ہے۔ اگر ہم اُس روشنی کو اپنی زندگیوں میں جذب کر لیں تو ہمارا معاشرہ یقیناً ترقی، اتحاد اور علم دوستی کا نمونہ بن سکتا ہے۔”