سوشیل میڈیامذہب

یکساں سیول کوڈ مسلمانوں کے علاوہ ہندو قبائل بھی مسترد کردینگے

جس وقت دستور کی دفعہ 44کو شامل کردیا گیا تھا اسے ایک لٹکتی تلوار کی طرح رکھ گیا کہ جب بھی موقع ہاتھ آئے اس قانون کے سہارے ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کردیا جائے۔ اس کی بازگشت موقع بہ موقع سنائی دیتی رہی اور اب پھر سے اس کے لئے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔

مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ Cell:9849099228

جس وقت دستور کی دفعہ 44کو شامل کردیا گیا تھا اسے ایک لٹکتی تلوار کی طرح رکھ گیا کہ جب بھی موقع ہاتھ آئے اس قانون کے سہارے ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کردیا جائے۔ اس کی بازگشت موقع بہ موقع سنائی دیتی رہی اور اب پھر سے اس کے لئے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ پہلے اتراکھنڈ میں مطالبہ ہوا اور اسے نافذ کرنے کی باتیں چل ہی رہی تھیں کہ اب گجرات میں بھی یکساں سیول کوڈ کا شوشہ چھوڑ کر سارے ملک میں مذہبی طبقات میں ہلچل کی کیفیت پیدا کردی گئی۔

یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے معنی مسلمانان ہند کے شخصی قوانین کی منسوخی کے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد سے لے کر آج تک ملت اسلامیہ ہند مختلف آزمائشوں سے دوچار رہی۔ آزادی کے بعد سے گزشتہ چند برس قبل تک جو گروہ ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں اقتدار پر رہا وہ بظاہر مسلمانوں کا ہمدرد بناکر اپنے آپ کو پیش کرتا رہا۔ لیکن اندرونی طور پر وہ مسلم اقلیت کو کبھی بھی سیاسی و سماجی طور پر اُبھرنے کا موقع نہ دیا اور ہمیشہ ووٹ حاصل کرنے کی مشین کی طرح استعمال کرتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹتا رہا۔ اس گروہ نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے فرقہ پرستوں اور مسلم اقلیت دشمنوں کو قانون کے دائرے میں لاکر ان کو لگام نہیں دی اور کبھی کبھی ان فسطائی طاقتوں پر لگام کسی بھی گئی تو نیم دِلانہ انداز میں اور دکھاوے کے طور پر عمل کیا گیا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں فسطائیت کو فروغ حاصل ہوا جن کی ابتداء جن سنگھ سے شروع ہوئی۔ پھر آگے بڑھ کر RSS کا وجود میں آنا ہے۔ اس طرح ان لوگوں کو دن بدن فروغ حاصل ہوتا رہا۔ 1924 ء میں کانگریس پارٹی کے ایک لیڈر پنڈت شردھانند کی برپا کردہ ’’شدھی سنگٹھن‘‘ تحریک کے بعد سے 6 ڈسمبر 1992 ء بابری مسجد کی شہادت تک کانگریس پارٹی کی حکومت کی مجرمانہ غفلت کا یہ واضح نتیجہ ہے کہ اقلیت دشمن طاقتوں کو اقتدار تک پہنچ جانے کا راستہ آسان ہوگیا، آج تو یہ حالت ہوگئی کہ یہ لوگ اپنے اقتدار کے نشہ میں جس طرح چاہے قانون سازی کر رہے ہیں اور تمام اصول و ضوابط کی اب کوئی اہمیت باقی نہ رہی۔

گزشتہ سات دہوں کے دوران ہندو فرقہ پرستوں کی جانب سے ملک میں مختلف نعرے لگائے گئے تاکہ صاف ذہن ہندو برادران بھی مسلم مخالف سازشوں کا شکار ہوجائیں۔ 1924ء میں شدھی سنگٹھن تحریک کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو یہ کہ مسلمانوں کی ’’شدھی‘‘ کی جائے یعنی انھیں پاک کیا جائے یا ان کی گھر واپسی کی جائے، کیوں کہ یہ پہلے ہندو ہی تھے بعد میں مسلمان بنے تھے۔ اس طرح انھیں دوبارہ ہندو بناکر ان کی تعداد کم کی جائے تاکہ یہ سر اُٹھاکر جینے کے لائق ہی نہ رہے۔ لیکن یہ تحریک کا پہلا جز ’’شدھی‘‘ کامیاب نہ ہوسکا البتہ اس سے سارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوچکے، حالانکہ پنڈت شردھانند کی برپا کردہ تحریک سے قبل ہندوستان میں ہندو مسلم شیر و شکر کی طرح رہا کرتے تھے یہاں تک کہ انگریزوں کی غلامی سے اس ملک کو آزادی دلانے کے لئے کاندھے سے کاندھا ملاکر ان لوگوں نے بھرپور حصہ لیا۔ آخرکار ملک آزاد بھی ہوا۔ لیکن تنگ نظر لوگ یہ نہیں چاہتے تھے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی خاص رول پروان چڑھے اس لئے ان لوگوں نے آزادیٔ ہند کے فوری بعد مسلمانوں کو سیاسی و سماجی اور معاشی لحاظ سے کمزور بنانے کا سامان کرنے لگے۔ یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ ’’شدھی و سنگھٹن‘‘ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں جیسا کہ اس کے نام سے ہی صاف ظاہر ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو شدھی (مرتد) کرنے میں کامیابی نہ ملے تو ’’سنگھٹن‘‘ (عسکری قوت) کو کام میں لاتے ہوئے مسلمانوں کی تعداد کو کم سے کم کرنا اور ان کے حوصلے پست کرنا تھا لیکن پنڈت شردھانند کے بعد ان کی تحریک کا دوسرا جز سنگھٹن ایک دوسرا روپ دھار لیا اور RSS کی شکل میں آج موجود ہے۔ ملک میں جتنے بھی فسادات ہوئے اس کا رشتہ کسی نہ کسی طرح RSS سے جا ملتا ہے اور جتنی بھی مسلم دشمن چھوٹی چھوٹی تنظیمیں ملک میں پائی جاتی ہیں اس کی ساری باگ ڈور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے ہاتھ میں ہے اور بشمول RSS ساری ذیلی تنظیموں کا اولین ہدف ملت اسلامیہ ہند ہے اور اِس تک پہنچنے کے لئے پچھلے سات دہوں سے پوری شدت کے ساتھ کوششیں جاری ہیں اور ان کی یہ ساری سرگرمیاں 2014ء تک برسر اقتدار رہی سابقہ حکمرانوں کی چشم پوشی کی وجہ سے ہی پنپتی رہیں۔ اس دوران ایک طرف ملک میں فسادات کروائے جاتے رہے اور ہزاروں جانیں تلف ہوتی رہیں اور دوسری جانب مسلمانوں کا مذہبی تشخص ختم کرنے کے لئے نت نئے فلسفے گھڑے جانے لگے اور مسلمانوں کو سماج میں نچلا دکھانے کے لئے وہ سب حربے استعمال کئے گئے جو اِن سے ہوسکتے تھے۔ کبھی ’’وحدت ادیان‘‘ کی بات کی گئی یعنی ملک میں پائے جانے والے مذاہب خدا تک پہنچنے کے مختلف راستے ہیں لہذا کسی مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر فوقیت نہیں۔ قومی دھارا کی بھی بات کہی جاتی رہی اور ان کا سارا روئے سخن ملت اسلامیہ ہند کی طرف ہی رہا۔ پروفیسر عمر حیات خان غوریؒ نے اس سلسلہ میں بڑی پتہ کی بات بتائی۔ وہ لکھتے ہیں کہ (قومی دھارا) کی بات کو جب سابق جن سنگھ لیڈروں نے دہرانا شروع کیا تو کبھی انھوں نے مسلمانوں سے ملک کی وفاداری کے سرٹیفکیٹ مانگے تو کبھی ان کی وفاداریوں کو مشکوک قرار دے دیا گیا اور بالآخر اس منشاء کو حاصل کرنے کے لئے ان کے بھارتی کرن کا نعرہ لگایا گیا (یکساں سیول کوڈ)۔

مختصر یہ کہ اسلام کو ایک فرسودہ طریقہ زندگی اور خونخوار بتایا جانے لگا۔ الغرض اصطلاحات بدلتے رہے اور جدید سے جدید الفاظ لوگوں کے سامنے لائے جاتے رہے لیکن اس پورے دور میں ان کی فکر و نظر ہندو راشٹریہ پر مرکوز رہی۔ لیکن ہر زمانے میں باطل کا رد کیا جاتا رہا ہے اور یہ خدائی نظم ہے کہ وہ اپنے منتخب بندوں کو اس کام پر لگادیتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں سب سے پہلے علامہ اقبالؒ نے نظم و نثر کے ذریعہ اور علامہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ہر قسم کے فکری ارتداد کے خلاف محاذ آرائی کے لئے میدان میں کود پڑے اور مذکورہ دونوں مجاہدین نے اپنے قلمی و نثری جہاد کے ذریعہ ایسا کارنامہ انجام دیا جس کی بدولت ہندوستانی مسلمانوں نے ہر طرح کی گمراہی اور لادینی و بے دینی فکر و نظر سے اجتناب کیا اور جو غیر تعلیم یافتہ اور غریب لوگ شدھی تحریک کا شکار ہوچکے تھے انھیں اپنے اصل مذہب (اسلام) کی طرف لانے کے لئے مولانا الیاسؒ نے بھی بہت محنت کی اور اس معاملے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن بعد میں آنے والوں نے مولانا کا اصل منہج شاید گم کردیا، ورنہ حالات بڑی حد تک قابو میں رہتے۔

ہندو احیاء پرست لوگوں نے سب سے بڑی اقلیت (مسلمانوں) کو ان کا مذہبی تشخص ختم کرنے کے لئے قانونی سہارا بھی لیا اور ان لوگوں نے سب سے پہلے آئین ساز اسمبلی میں یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ کو زیربحث لاتے ہوئے فوری طور پر یکساں سیول کوڈ کو دستور ہند میں شامل کروانے پر ضد نہیں کی بلکہ ایک مبہم بات سامنے آئی۔ یہ بات نوٹ کی جانی چاہئے کہ اس مسئلہ پر بحث میں حصہ لینے والے لوگوں میں معتدل اور انتہا پسند قسم کے دو گروہ شامل رہے لیکن ان لوگوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ یکساں سیول کوڈ کے لئے آئندہ کام آنے والی چیز کے طور پر مملکت کی حکمت عملی کے ہدایتی اصول (Directive Principles of Stat Policy) کے تحت دفعہ 44 کو اس میں شامل کرکے یہ مسئلہ مستقبل پر چھوڑ دیا گیا تاکہ آئندہ موقع ملتے ہی اس کے سہارے یکساں سیول کوڈ کو نافذ کرنے کی راہ ہموار ہوجائے تاکہ مسلم معاشرے کی انفرادیت کو ختم کیا جائے اور مسلم پرسنل لاء کو غیر محسوس طریقہ پر شکنجے میں کستے ہوئے کمزور سے کمزور کردیا جائے۔ دوسری طرف ان لوگوں نے معاشرے کے نوجوانوں کو اپنے مذہب کے اُصولوں سے فراری اختیار کرنے کے لئے اسپیشل میاریج کو منظور کروایا تاکہ شادیاں مذہب اور اس کی بندش سے آزاد ہوکر کی جانے لگے تاکہ مسلم نوجوان اپنی انفرادیت کو کھودے۔ جب C.R.P.C تعزیرات ہند پر نظرثانی کا موقع آیا تو ان لوگوں نے یہاں پر بھی غیر محسوس طریقہ پر مسلم پرسنل لا جو (حقیقت میں اسلام کے عائلی قوانین کے احکام کے تابع) ہے اس میں مداخلت کی غرض سے دفعہ 125 میں ترمیم کرتے ہوئے مسلم و غیر مسلم کا فرق کیے بغیر اس بات کے احکام دیئے گئے کہ مطلقہ عورت تا عقدثانی سابق شوہر سے نان و نفقہ حاصل کرتی رہے۔ عورت کو یہ جو استحقاق دیا گیا ہے وہ اسلامی شریعت کے عین خلاف ہے۔ اس کی تفصیل تحریر کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے۔

مسلم اُمت سے بغض و عداوت رکھنے والے لیڈر اُردو زبان کی حوصلہ شکنی کے لئے اس زبان کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی دو تین نسلیں اُردو زبان سے بے بہرہ ہوکر رہ گئی۔ ’’اُردو سے دشمنی کیوں‘‘ یہ ایک اہم سوال ہے اس کا مختصر جواب یہی ہے کہ اُردو کو ختم کردو کیوں کہ اسلامی تہذیب و ثقافت علوم و فنون کا خزانہ اُردو زبان میں موجود ہے۔ اس سے مسلمانوں کو دور رکھنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ اسلامی تہذیب کے خاتمہ کے لئے بڑی ہوشیاری کے ساتھ بھارتی تہذیب کے نام سے ہندو تہذیب و ثقافت کو پوری شدت کے ساتھ اُبھارا گیا اور اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، اور ہندی زبان والی ریاستوں میں یہ تھیوری زوروں پر ہے۔

مسلمانوں میں معاشی پسماندگی پیدا کرنا بھی ایک اہم مقصد رہا ہے کہ مسلم اُمت کو ملک میں روزی روٹی کے لئے سرکاری ملازمتوں کے دروازے پوری طرح کشادہ نہ کئے جائیں۔ اگر کہیں ووٹوں کے حصول کے لئے سرکاری ملازمتیں دیئے بھی جائیں تو صرف آٹے میں نمک کے برابر ہی ہونا چاہئے۔ مسلمان جب اپنی روزی روٹی پیدا کرنے کے لئے ذاتی طور پر کچھ چھوٹی چھوٹی صنعتیں اور کارخانے اور دوکانات قائم کرکے اپنی معاشی حالت کو سنبھالا دینے کے لئے کوشش کی تو اسے فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ تباہ و تاراج کرنے کے لئے ان کے کاروباری مراکز کو لوٹا گیا، نذر آتش کیا گیا اور ان کے گھروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا۔ نتیجہ کے طور پر معاشی لحاظ سے مسلمان جہاں سے اُٹھے تھے وہیں پہنچائے جاتے رہے۔ اور یہ کھیل پچھلے چھ سات دہوں سے کھیلا جارہا ہے اور ملک میں اب تک جتنے فسادات رونما ہوئے۔ اس میں غالب چیز یہی رہی ہے کہ مسلمانوں کی معیشت کو تباہ کردیا جائے تاکہ یہ ’’قوت لایموت‘‘ فراہم کرنے میں ہی اپنا وقت اور صلاحیت صرف کرتے رہیں اور اقتدار میں حصہ داری کی طرف ان کی توجہ ہرگز نہ جائے، ملک کے شہری کی حیثیت سے دستور نے جو حقوق مقرر کئے ہیں اس کی حصولیابی کے لئے کوئی جدوجہد ہی نہ کرسکیں۔

مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے وزن کرنے کے لئے بھی مکروہ سازشیں کی جاتی رہیں۔ ان کا سیاسی مقاطعہ اس طرح کیا گیا کہ انتخابی حلقے بناتے وقت مسلم اُمت کے اکثریتی علاقوں کو ایسا تقسیم کردیا گیا کہ وہ کئی کئی حلقوں میں بٹ کر رہ گئے اور جہاں مسلم اکثریتی ووٹروں کو تقسیم نہ کیا جاسکا وہ حلقے ریزرو کانسٹی ٹیونسی بناکر (خواہ پارلیمانی حلقے ہوں یا ریاستی اسمبلیاں ہوں) مسلم نمائندگی سے محروم کرنے کے لئے اکثر جگہ کوششیں کی گئیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جو پارٹیاں اپنے آپ کو غیر فرقہ پرست باور کراتی ہیں اور سیکولر ہونے کا دم بھرتی ہیں۔ یہ بھی مسلمانوں کو انتخابات کے موقع پر ٹکٹ دینے میں انصاف نہیں کرتیں، جو پارٹیاں سیکولرازم کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، اگر یہ لوگ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں انصاف سے کام لیتے تو آج پارلیمنٹ میں کم و بیش 100 مسلم ممبران مسلمانوں کے علاوہ دیگر پسماندہ گروہوں کی اچھی نمائندگی کرتے اور ان کے مسائل حل کرتے۔

(جاری)