جو بائیڈن کی دستبرداری پر بین الاقوامی رہنماؤں کا زبردست ردعمل
جو بائیڈن 1968 کے بعد امریکی صدارتی دوڑ سے دست بردار ہونے والے پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں، بین الاقوامی سطح پر ان کی جانب سے صدارت سے دست برداری کے اعلان کی تعریف کی جارہی ہے۔
واشنگٹن: جو بائیڈن کی دست برداری پر بین الاقوامی رہنماؤں نے انھیں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔
جو بائیڈن 1968 کے بعد امریکی صدارتی دوڑ سے دست بردار ہونے والے پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں، بین الاقوامی سطح پر ان کی جانب سے صدارت سے دست برداری کے اعلان کی تعریف کی جارہی ہے۔
سابق صدر براک اوباما نے بائیڈن کے ریکارڈ کی تعریف کی، سوشل میڈیا پر لکھا کہ جو بائیڈن اعلیٰ ترین درجے کے محب وطن ہیں۔
جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ میرے دوست نے اپنے ملک، یورپ اور دنیا کے لیے بہت کچھ حاصل کیا، بائیڈن کی بدولت آج ٹرانس اٹلانٹک تعاون قریب ہے، نیٹو مضبوط ہو گیا ہے اور امریکہ ہمارے لیے ایک اچھا اور قابل اعتماد پارٹنر ہے۔ ان کا دوبارہ انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ قابل تعریف ہے۔
برطانوی وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر نے بھی بائیڈن کے فیصلے کو سراہا، اور کہا کہ وہ اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں، صدر بائیڈن نے اپنا فیصلہ یقیناً امریکی عوام کے بہترین مفاد کی بنیاد پر کیا ہوگا، انھوں نے اپنے شان دار کیریئر میں ہمیشہ ایسا ہی کیا۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جو بائیڈن اور امریکی خاتون اوّل جِل بائیڈن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے صدر کو کینیڈا کا سچا دوست قرار دیا اور کہا کہ وہ ایک عظیم آدمی ہے، اور وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اپنے ملک کے لیے اپنی محبت کی وجہ سے کرتا ہے۔
پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے کہا جو بائیڈن نے اپنے سیاسی کیریئر میں بہت سے مشکل فیصلے کیے جن کی بدولت پولینڈ، امریکا اور دنیا محفوظ اور جمہوریت مضبوط ہوئی۔ انھوں نے کہا ’’میں جانتا ہوں کہ آپ نے اپنا تازہ ترین فیصلہ بھی اپنے ان ہی اصولوں کی رہنمائی میں کیا ہے، شاید آپ کی زندگی کا یہ سب سے مشکل فیصلہ ہے۔‘‘
جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا نے اپنے پیغام میں کہا کہ جو بائیڈن کی دست برداری کا فیصلہ ایک بہترین سیاسی فیصلہ ہے۔ جاپان-امریکا اتحاد ہمارے ملک کی سفارت کاری اور سلامتی کا سنگ بنیاد ہے، اس لیے ہم صورت حال پر گہری نظر رکھیں گے۔
جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم پیٹر فیالا نے بائیڈن کے دست برداری کے فیصلے کو ’’ذمہ دارانہ اور ذاتی طور پر مشکل تاہم بہت زیادہ قیمتی‘‘ قرار دیا۔ لیکن فیالا نے امریکہ میں بڑھتی ہوئی سیاسی غیر یقینی صورت حال کو بھی تسلیم کیا اور کہا میں پوری دلچسپی کے ساتھ منتظر ہوں کہ ایک مضبوط جمہوری مقابلے میں ایک اچھا صدر سامنے آتا ہے۔
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ وہ بائیڈن کے ’سخت لیکن مضبوط فیصلے‘ کا احترام کرتے ہیں اور ’یوکرین کی آزادی کی لڑائی کے لیے غیر متزلزل حمایت‘ پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
امریکا سے متصادم کچھ ممالک نے بھی جو بائیڈن کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے اسے ’عقل مندانہ اور درست فیصلہ‘ قرار دیا۔ اور کہا مسٹر بائیڈن نے محسوس کیا کہ اس عمر میں اور کمزور صحت کے ساتھ وہ اپنے ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھال سکتے، اس لیے صدارتی دوڑ چھوڑ دینی چاہیے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ روس کی ترجیح اب بھی یوکرین میں اپنی جنگ پر ہوگی، انھوں نے مزید کہا کہ نومبر میں امریکی صدارتی ووٹنگ سے پہلے ’’بہت کچھ بدل سکتا ہے، ہمیں صبر اور احتیاط سے مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہوتا ہے۔‘‘