اسدالدین اویسی کی درخواست کی سنوائی سے سپریم کورٹ کا اتفاق
سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز اے آئی ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی کی درخواست پر غور کرنے سے اتفاق کرلیا جس میں 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کے موثر نفاذ کا مطالبہ کیا گیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو برقرار رکھا جائے جیسا کہ وہ 15 اگست 1947 کو تھا۔
نئی دہلی (پی ٹی آئی) سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز اے آئی ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی کی درخواست پر غور کرنے سے اتفاق کرلیا جس میں 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کے موثر نفاذ کا مطالبہ کیا گیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو برقرار رکھا جائے جیسا کہ وہ 15 اگست 1947 کو تھا۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار پر مشتمل بنچ نے اویسی کی درخواست کو اس مسئلہ پر زیرالتوا مقدمات کے ساتھ منسلک کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اس پر 17 فروری کو ان کے ساتھ غور کیا جائے گا۔
ابتدا میں وکیل نظام پاشاہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسدالدین اویسی کی طرف سے پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت کو اس مسئلہ پر مختلف درخواستوں کے بارے میں واقف کرایا جاچکا ہے۔ آپ تازہ درخواست کو بھی ان کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اسے منسلک کردیں گے۔ اویسی نے 17 دسمبر 2024 کو ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی کے ذریعہ درخواست داخل کی تھی۔ بہرحال چیف جسٹس آف انڈیا کی زیرصدارت بنچ نے 12 دسمبر کو 1991 کے قانون کے خلاف مماثل درخواستوں کی ایک کھیپ پر اقدام کرتے ہوئے تمام عدالتوں کو مساجد اور درگاہوں سے متعلق نئے مقدمات کی سماعت کرنے یا انہیں قبول کرنے اور مذہبی مقامات کے دوبارہ حصول کے لئے دائر کئے گئے کیسس پر کوئی عبوری یا قطعی فیصلہ صادر کرنے سے روک دیا تھا۔
خصوصی بنچ تقریباً 6 درخواستوں کی سماعت کررہی ہے جن میں وکیل اشوینی اُپادھیائے کی طرف سے دائر کی گئی سرکردہ درخواست بھی شامل تھی جس میں عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کی مختلف دفعات کو چیلنج کیا گیا تھا۔ 1991کا قانون کسی بھی عبادت گاہ کی تبدیلی پر پابندی عائد کرتا ہے اور کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو برقرار رکھنے جیسا کہ وہ 15 اگست 1947 کو تھا‘ کا نظم کرتا ہے۔
بہرحال ایودھیا میں واقع رام جنم بھومی۔ بابری مسجد تنازعہ کو اس کے دائرہ کار سے باہر رکھا گیا تھا۔ اویسی کی درخواست میں مرکز کو یہ ہدایت دینے کی گزارش کی گئی کہ اس قانون کو موثر طورپر نافذ کیا جائے اور مختلف واقعات کا حوالہ دیا گیا جہاں کئی عدالتوں نے ہندو درخواست گزاروں کی درخواستوں پر مساجدکے سروے کا حکم دیا ہے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 12 دسمبر 2024کو مختلف ہندو فریقوں کی جانب سے دائر کئے گئے 18 مقدمات جن کے ذریعہ 10 مساجد بشمول وارانسی کی گیان واپی مسجد‘ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے اصل مذہبی کردار کا پتہ چلانے کی درخواست شامل ہے‘ میں کارروائی پر موثر روک لگادی تھی۔