سپریم کورٹ سے آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں حد بندی کے لیے مرکزی حکومت کو ہدایت دینے کی عرضی خارج
جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جائیمالیہ باغچی کی بنچ نے کے پرشوتم ریڈی کی درخواست مسترد کر دی، جس میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ جموں و کشمیر کے لیے حد بندی کی گئی اور اسمبلی حلقوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ، لیکن آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں ایسا نہیں کیا گیا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز آندھرا پردیش اور تلنگانہ کی حد بندی کرکے اسمبلی حلقوں کی تعداد بڑھانے کی عرضی مسترد کردی۔
جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جائیمالیہ باغچی کی بنچ نے کے پرشوتم ریڈی کی درخواست مسترد کر دی، جس میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ جموں و کشمیر کے لیے حد بندی کی گئی اور اسمبلی حلقوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ، لیکن آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں ایسا نہیں کیا گیا۔
درخواست گزار نے اسے مرکزی حکومت کی من مانی اور آئین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
بنچ نے ریڈی کی اس رخواست کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش ریاستوں کو جموں و کشمیر کی مانند نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔
بنچ کا خیال تھا کہ اس سے (درخواست قبول کرنے سے) تمام ریاستوں کے لیے مساوات کا مطالبہ کرنے کے کئی راستے کھل جائیں گے۔ بنچ نے کہا، "ہمارا خیال ہے کہ آرٹیکل 170(3) کے تحت آئینی مینڈیٹ ہی ایک رکاوٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔
حد بندی کا مطالبہ اس کے برعکس ہے۔ تنظیم نو کے جموں و کشمیر آئین کے حصہ VII کے باب 3 کے تحت زیر انتظام نہیں ہے۔ اس لیے، ہمیں نہیں لگتا کہ آندھرپردیش اور تلنگانہ کو متنازعہ حدبندی کے نوٹیفکیشن سے باہر رکھنا منمانی یا آئین کی خلاف ورزی ہے۔”
واضح ر ہے کہ جموں و کشمیر میں 2022 میں حد بندی کی گئی تھی اور اسمبلی سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا۔