طنز و مزاحمضامین

دُم پہ پاﺅں

زکریا سلطان۔ ریاض

حیدرآباد دکن میں بے صبرے معززین کو شرفا بے صبرا مردہ کہتے ہیں۔ ان حضرات کے بارے میں بڈھیوں کوہم نے کئی مرتبہ یہ کہتے سنا ہے کہ ”امّاں کے پیٹ میں کیسا رہا کی باوا تُو“ یہ بات ہمیں ہر اس شخص کو دیکھ کر یاد آتی ہے جو بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے، خواہ وہ کھانے کے میز کی طرف بڑھتا ہو یا ٹریفک میںبدحواس گاڑی دوڑاتا ہو ۔ بے صبری کا مظاہرہ کہیں بھی اور کبھی بھی ہوسکتا ہے، اس کے مناظر دن رات دیکھنے کو ملتے ہیں،بازاروں میں راستہ میںیہاں تک کہ عبادت گاہوں میں بھی! بے صبروں کی کمی نہیں ”غالب“ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں والی بات ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائیل فون سے کس کو رستگاری ہے، سب ہی اس کے رسیا بلکہ اسیر بن گئے ہیں۔ کیا بڑا کیا چھوٹا کیا سچا کیا جھوٹا، امیر غریب فقیر عورت مردنوجوان اور بوڑھے سب ہی اس کی لت میں مبتلا ہیں، گویا کہ موبائیل اور واٹس ایپ اب غذا ہوا اور پانی جیسی زندگی کی ضرورت بن گیا ہے۔ بہت سے بے صبرے تو دن دیکھتے ہیں نا رات، صبح دیکھتے ہیں نہ شام، خلوت و جلوت میں ہر مقام پر ہر وقت موبائیل فون کان سے چمٹا رہتا ہے یا پھر انگلیاں واٹس ایپ کے اسکرین پر رقص کرتی رہتی ہیں، ادھر پیغام گیا کہ اُدھر جواب حاضر،جب سے واٹس ایپ ایجاد ہوا ہے کمبخت سارے قاصد بے روزگار ہوگئے ہیں ، اب راست گفتگو اور پیغامات کی ترسیل ہوتی ہے نہ کاغذ کی ضرورت رہی نا قلم کی، کبوتر بھی اب راحت و سکون محسوس کررہا ہے کہ چلو جان چھٹی۔ پیغامات کی ترسیل میں نوجوانوں کو بوڑھوں پر سبقت حاصل ہے، لیکن فضیلت خواتین کو ہی ہے، ان میں بھی نوجوان لڑکیاںآگے ہیں، خواہ اخلاق و آداب اور امور خانہ داری میں وہ صفرہی کیوں نہ ہوں۔ہر نئی ٹیکنیک اور ہر نئے ایپ سے نوجوان اپنے آپ کو مسلح کیے ہوئے ہیں، جس کے نتائج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ موبائیل کا استعمال مثبت و مفید کاموں کے لیے کم اور لغویات کے لیے زیادہ ہورہا ہے ،بے شمار فتنے اس سے جنم لے رہے ہیں اور کئی شادی شدہ زندگیاں برباد ہورہی ہیں تو کئی نوجوان لڑکیوں کی عصمتیں لُٹ رہی ہیں بہرحال موبائیل فون بھی ایک چاقو یا چھری کی طرح ہے جس سے کسی مریض کی سرجری کی جاسکتی ہے یا کسی بے گناہ کا قتل کرکے اسے موت کے گھاٹ بھی اتارا جاسکتا ہے، ڈاکٹر اجر و ثواب کا مستحق ہوگا جبکہ قاتل گناہ و عذاب میں مبتلا ہوگا ۔اب تو نوجوانوں کا لب و لہجہ بھی بدل گیا ہے۔ انٹرنیٹ کی زبان بولی جارہی ہے ، ایک نوجوان صبح صبح ڈاکٹر کے پاس جاکر کہنے لگا ڈاکٹر صاحب ہمارے باوا کو رات سے تیز بخار ہے ، وائبریشن موڈ میں آگئے ہیں، کہیں سائلنٹ موڈ میں نہ آجائیںجلدی چلئے!
ہاں تو بات ہورہی تھی بے صبری اور موبائیل فون کی تو مزید سنیے کہ اس کی لت میں مبتلا ہونے والے اچھے اچھے مولوی ملاﺅں کو بھی ہم نے دیکھا ہے، یہاں تک کہ بعض امام صاحبان کو بھی بے صبری سے سلام پھیرنے کے فوری بعد ذکر و اذکار کرنے کی بجائے سیل فون نکال کرواٹس ایپ میسیجیس کو ٹٹولتے دیکھا ہے! جب امام کا یہ حال ہے تو مقتدی اور عام مصلی کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں چنانچہ بعض مصلی بھی سلام پھیرنے کے فوری بعد جیب سے موبائیل نکال کر پیغامات دیکھنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔شاید بیگمات کا ڈر رہتا ہوگا کہ اجی! کہاں چلے گئے؟ اتنی دیر سے کہاں ہیں؟ جلدی آﺅ !!! یہاں خلیج کی اکثرمساجدبڑی خوبصورت بنائی گئی ہیں، الحمدللہ ، بہترین خوشنما نرم اور موٹی قالین تقریباً ہر مسجد میں ہوتی ہے ، تمام مساجدایر کنڈیشنڈہیں کیوں کہ یہاں گرمی کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے اور آج کا عام مسلمان اللہ کی راہ میںتھوڑی سی گرمی اور تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتا، مگر اے سی میں بیٹھ کر آن لائن دین کی تبلیغ کرنا اور دعاﺅں کو فارورڈ کرنا اپنی بہت بڑی ذمہ داری سمجھتا ہے ، چلئے کم از کم اس حد تک تو دین سے وابستہ اور پیوستہ ہے۔ ٹھنڈک کے لیے بعض اوقات بلیاں بھی مسجدوں میں داخل ہوجاتی ہیں،اے سی کی ٹھنڈک سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہماری مسجد کے دروازے پر اکثرایک بلی بڑے اطمینان سے بیٹھی رہتی ہے ،ایک دن ہم نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے۔ ہمارے سامنے والے صاحب یکایک زوردار چیخ مار کر اچھل پڑے اور ان کے ہاتھ سے سیل فون چھوٹ کر کافی دور جاگرا اور سارے لوگ متوجہ ہوکر تماشا دیکھنے لگے ، ہوا یوں کہ موصوف مسجد سے نکلتے ہوئے اپنی دھن میں واٹس ایپ پر پیغامات چیک کر رہے تھے اور ان کا پاﺅں بلی کی دم پر پڑگیا، بلی خوفناک چیخ کے ساتھ اچھل پڑی اورڈر کر ہیبت میں یہ بھی اچھل پڑے۔ہمیں اس وقت حیدرآبادی بُڈھیوں کی بہت یاد آئی۔ویسے بھی آج کل یہی ہورہا ہے، آپ جب تک کسی کی تعریف ، خوشامد پسندی ، چاپلوسی اور تابعداری کرتے رہتے ہیں، اُس وقت تک آپ بہت اچھے آدمی کہلائے اور سمجھے جاتے ہیں اور جب کبھی آپ نے کسی کواس کی غلطی پر ٹوکا ،سمجھانے اور سدھارنے کی کوشش کی ،سچ اور حق بات کہہ دی تو سمجھئے کہ آپ نے بلی کی دم پر اپنا پاﺅں رکھ دیا جسے دوسرے الفاظ میں دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا کہا جاتا ہے، یہاں سے آپ کی مخالفت اورآپ سے مخاصمت شروع ہوجاتی ہے۔آپ کو برے لوگوں میں شامل کرکے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے ۔شاید ان سب جھنجھٹوں اور جھمیلوں سے بچنے کے لیے لوگ آج کل نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا چھوڑ چکے ہیں (الّا ما شاءاللہ) جس کی وجہ سے معاشرہ میں بے شرمی، بے حیائی، برائیاں، گناہ،ظلم و نا انصافی پھیل رہی ہے اور شریف خدا ترس لوگ اپنی عزت بچاکر رنج و غم کے ساتھ گھُٹ گھُٹ کر جی رہے ہیں۔