مضامین

باہمی تنازعات کا جنگ میں بدلنا کسی کے لیے سود مند نہیں

منور مرزا

جب بھی دنیا میں سرد جنگ کے، عالمی جنگ یا کسی باہمی تنازعے کے باقاعدہ جنگ میں بدلنے کے خدشات جنم لینے لگیں یا دنیا کے لیے قدرتی آفات پر قابو پانا مشکل ہوجائے، تو بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان مسائل کے حل کے لیے افہام و تفہیم، ڈائیلاگز کا عمل ناگزیر ہوجاتا ہے اور اس وقت دنیا کو جس قسم کے بحران کا سامنا ہے، خاص طور پر معاشی میدان میں پیدا ہونے والے بحران نے یہ ملاقاتیں اور بھی ضروری کردی ہیں۔ اسی حوالے سے گزشتہ دنوں امریکی صدر، جو بائیڈن اور چینی صدر، شی جن پنگ کی ملاقات ہوئی، جس میں طے کیا گیا کہ سرد جنگ ہوگی، نہ ہی بڑی طاقتوں کے مابین مقابلے کی فضا کوتنازعات میں تبدیل ہونے دیا جائے گا۔
واضح رہے، دونوں بڑے ممالک، امریکہ اور چین کے سربراہان کی تین برسوں میں یہ پہلی ملاقات ہے، جو انڈونیشیا کے جزیرے، بالی میں ہوئی۔ امریکی اور چینی صدوربالی میں منعقدہ جی۔20امیر ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے، لیکن بائیڈن اور شی جن پنگ ملاقات اس کانفرنس سے پہلے ہوئی، جس کا اثرپھر کانفرنس کے فیصلوں میں بھی صاف دکھائی دیا۔ ملاقات کا مقصدآج کے اس ہیجانی دورمیں مفاہمت کی راہیں تلاش کرنا تھا، جس میں دونوں ہی لیڈرز خاصے کامیاب نظر آئے۔
امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان ایک ایسا تنازع ہے، جو بلاشبہ خاصی حد تک فوکس میں رہا، لیکن اصل میں روس، یوکرین جنگ، جسے اب نو مہینے سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے، بڑوں کی ملاقات میں بنیادی اہمیت کی حامل تھی۔ یاد رہے، روسی صدر، ولادیمرپوٹن اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔روس کے یوکرین پر حملے سے دنیا بھر میں شدید مہنگائی کی لہر آئی اور توانائی کا جو بحران پیدا ہوا، اس سے یہ بڑی طاقتیں کیسے صرفِ نظر کرسکتی تھیں، جب کہ خود ان کے ممالک کی معیشت پر بھی اس جنگ کے خاصے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
یاد رہے،صدر شی جن پنگ کو تیسری مرتبہ صدر کے عہدہ پر فائز کیا گیا ہے، اب کمیونسٹ پارٹی اور قوم کے اس اعتماد کی بدولت ان کے لیے فیصلے کرنا آسان ہو جائے گا، جب کہ صدر بائیڈن بھی زیادہ اعتماد سے شریک ہوئے کہ امریکی مڈٹرم انتخابات ہوچکے ہیں اور اس میں ان کی پارٹی کی کارکردگی مناسب رہی ہے۔ اب بظاہر خارجی محاذ پر ان کے لیے فیصلوں میں کوئی رکاوٹ نہیں، اسی لیے دونوں بڑی طاقتوں کے سربراہان کی تین گھنٹے طویل ملاقات کا حاصل دنیا کے لیے امن کا پیغام تھا۔
چین اور روس گزشتہ برسوں میں امریکہ اور مغربی ممالک کی سخت اور جارحانہ روش کی وجہ سے بہت قریب آئے۔ اس حوالے سے صدر پوٹن اور صدر شی جن پنگ میں بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ یاد رہے، چین مغربی پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے روس سے سستا تیل بھی خریدرہا ہے اور اقوامِ متحدہ میں بھی اس نے روس کاساتھ دیا۔ اس ملاقات میں صدر شی جن پنگ نے یوکرین کی جنگ پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ”جنگ بہت طول پکڑ چکی ہے، اب اسے ختم ہونا چاہیے۔“
اب امریکہ نے اس سے اتفاق کیاہو یا نہیں، لیکن ترقی پذیر ممالک کی تو یہی آواز ہے کہ اس جنگ کی فوجی تباہ کاریاں اپنی جگہ اور قابل مذمت، لیکن جس طرح اس نے دنیا کو معاشی طور پر کمزور اور مجبور کیا ہے، وہ ناقابل برداشت ہے۔ امریکہ پر بھی مغرب اور روس کی اس فوجی، اقتصادی کشمکش نے بہت برا اثر ڈالا ہے۔ صدر پوٹن کو شاید اس ملاقات کے بعد یہ احساس ضرور ہوا ہوگا کہ تیل، گیس اور گندم کی بڑی سپلائی موجود ہونے کے باوجود اس کا ظالمانہ، بیدریغ استعمال ہرگز مناسب نہیں، مگر اب یہ صرف اُن کا معاملہ نہیں رہا کہ یہ اب دنیا بھر میں مہنگائی کا مسئلہ بن گیا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو، جو یوکرین کی جنگ سے تنگ نہ آچکا ہو۔
بہرحال، صدر شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد اب یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ روسی صدر کوکسی مناسب حل کے لیے قائل کر سکیں گے۔ امریکہ اور چین کا اصل تنازع انڈو،چین تائیوان پر ہے،جس میں امریکی سینیٹ کی چیئر پرسن کے دورے پر تلخی بہت بڑھ گئی تھی،چین کے صدر نے واضح طور پر تائیوان کو پہلی ریڈ لائن قرار دیا اور امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ”ایک چین کی پالیسی“ پر سختی سے قائم رہے، وگرنہ چین اس سے اندرونی معاملے کے طور پر نمٹے گا۔
گو،صدربائیڈن نے پھر ”ایک چین پالیسی“کا اعادہ کیا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ”تائیوان پر حملے کی صورت میں امریکہ اس کا دفاع کرے گا۔“لیکن اکثر ماہرین کی رائے ہے کہ اس ڈائیلاگ کے بعد دونوں ممالک کی کشیدگی میں ٹھہراؤ آگیا ہے اور فی الحال خطے میں دونوں بڑی طاقتوں کے ٹکراؤ کاکوئی خطرہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ اور چِین کے درمیان اصل مقابلہ اقتصادی میدان میں ہے کہ دونوں دنیا کی تجارت کے سب سے بڑے پارٹنرز ہیں، جو قریباً آٹھ سوارب ڈالرز کے قریب ہے۔ گزشتہ برسوں سے امریکہ خسارے میں جارہا ہے اور وہ اس کا الزام چین کی پالیسیزکے سر ڈالتا ہے۔
سابق امریکی صدر، ٹرمپ نے اس پر نہ صرف بہت شور مچایا تھا، بلکہ اسی سبب چین سے کئی معاہدے بھی کیے، تاکہ ایک چینی اور امریکی تجارت میں توازن پیدا ہوسکے۔ امریکہ، روس کے ساتھ چین پر بھی اپنے خلاف سائبر جارحیت کا الزام لگاتا ہے، جسے چین سختی سے مسترد کرتا آیا ہے۔ پر، ایک اہم سوال یہ ہے کہ چین، امریکہ سے کیا چاہتا ہے اور امریکہ چین سے کیا توقع رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ جوبائیڈن اور شی جن پنگ کی ایک دوسرے کے ساتھ خاصی اچھی ذہنی ہم آہنگی ہے کہ جب یہ دونوں نائب صدور تھے، تو اس زمانے میں ان کی بات چیت چھے، چھے گھنٹوں پر محیط ہوتی تھی، جو میز پر بیٹھنے سے چہل قدمی تک جاری رہتی تھی۔
دونوں ایک دوسرے کے لیے خاص رواداری رکھتے اور ایک دوسرے کو دوست کہہ کر پکارتے ہیں، اسی لیے ماہرین میں سے اکثر کی رائے یہی ہے کہ دونوں رہنماؤں کا موجودہ دورہ بھی مثبت نتائج کاحامل رہے گا، جو یقینا دنیاکے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ جہاں تک بات ہے، چین کی امریکہ اور امریکہ کی چین سے توقعات کی، تو چین اب ترقی کی اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ وہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے عالمی معاملات میں مرکزی کردار ادا کرنے دیا جائے۔اس کی بات کو تمام طاقتوں کو وزن دینا چاہیے، اسی لیے صدر، شی جن پنگ نے کہا کہ ”زمین میں اتنی وسعت ہے کہ وہ امریکہ اور چین دونوں کو یک ساں ترقی کے مواقع فراہم کرے۔“
دوسری جانب امریکہ بھی چین سے اس امر پر بڑی حدتک متفق دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ دنیا اسی نظام کے تحت چلتی رہے، جو اس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد تخلیق کیا۔ چین نے ڈینگ ژیاؤ پنگ کے بعد خود کو مضبوط کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں، خاص طور پر مالیاتی اور اقتصادی نظام کے حوالے سے بہت کام کیا۔ اب، جب وہ ترقی کی اس بلندی پر پہنچ چکا ہے، جہاں اپنی بات منواسکے، تو اسے بجا طور پر یہ حق ہے کہ وہ اپنا مقام عالمی طور پر منوائے۔
یوکرین کے معاملے میں روس سے قریبی دوستی کے باوجود صدر شی جن پنگ کی کھلے عام تشویش اور جنگ کے جلد رکنے کی بات کرنا اس امر کی غمّازی کرتا ہے کہ وہ اس پر ڈٹاہوا ہے کہ ممالک کے درمیان مقابلہ ہونا چاہیے، تنازعات اور جنگ نہیں۔ صدر پوٹن تو بالی کانفرنس میں شریک نہ تھے، لیکن ان کے دست راست اور منجھے ہوئے وزیر خاجہ، سرجئی لاروف روس کی نمایندگی کر رہے تھے، تو یقینا انہوں نے یہ بات اپنے لیڈر تک پہنچاہی دی ہوگی۔ دوسری جانب اگر کانفرنس کی بات کی جائے، تو ”جی۔20،بالی کانفرنس“ یوکرین جنگ کے اردگر گھومتی رہی۔اسی لیے اس کے علانیے میں بھی جنگ کی مذمت کے ساتھ اسے فوری طور پر روکنے اور جنگ کے معاشی اثرات کم کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو زیادہ امداد اور سہولتیں دینے کی بات کی گئی ہے۔ جی۔20 کے زیادہ تر ممالک کا تعلق مغربی بلاک سے ہے اور جن کا نہیں ہے، وہ بھی جنگ کے منفی اثرات کی لپیٹ میں ہیں۔ کوئی بھی ملک اس بات پرخوش نہیں کہ وہ عالمی وبا کے فوراً بعدایک اور معاشی آزمائش سے گزرے اور اپنے عوام کے غم و غصے کا شکار ہو۔یوروپی ممالک میں فرانس کے صدر، ایمانوئل میکرون نے اس سلسلے میں خاصا فعال کردار ادا کیا ہے۔ ان کے قریباً ہرفریق سے تعلقات ہیں۔
خاص طور پر چینی صدر سے ملاقات کو اہم مانا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں انہوں نے یوروپ کے سنجیدہ تحفظات سے چینی صدر کو آگاہ کردیاہے۔ علاوہ ازیں، یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ جن کی ہم دردی روس کے ساتھ ہے، ان کا پیمانہ صبر بھی اب لب ریز ہوتا جا رہا۔ روس نے شاید اسی لیے کہا کہ ”کانفرنس کے علانیے کو امریکی اتحادیوں نے سیاسی بنانے کی کوشش کی۔“ لیکن یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک اس جنگ کے اختتام اور دنیا کی معاشی صورت حال کو مستحکم کرنے پر متفق نظر آتے ہیں۔
دوسری جانب، اگر ایک اور اہم عالمی موضوع پر بات کی جائے، تو ڈونالڈ ٹرمپ نے2024 ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کااعلان کردیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے قانونی کارروائیاں بھی مکمل کرلی ہیں۔ ٹرمپ کا کہناہے کہ ”اگر ری پبلکن پارٹی ایوان ِ نمایندگان اور ریاستی گورنر کے مِڈٹرم الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب رہی، تو وہ ایک مرتبہ پھرصدر کے عہدے کا انتخاب لڑیں گے۔“اس ضمن میں انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”امریکہ کی بحالی اب آج اور اسی وقت سے شروع ہوچکی ہے۔
گرچہ اس وقت ہم ایک ایسی قوم ہیں، جو تنزلی کی طرف جارہی ہے، لیکن امریکہ کو دوبارہ عظیم اور شان دار بنانے کے لیے میں اپنی امیدواری کا اعلان کر رہاہوں۔“ ایک گھنٹے کی تقریر میں انہوں نے اپنے پسندیدہ موضوعات، جن میں بارڈر سیکورٹی، توانائی میں خود مختاری، جرائم وغیرہ پر تفصیلاً اظہار خیال کیا۔ ٹرمپ کے اس اعلان نے انہیں پہلا صدارتی امیداوار بنا دیا ہے اور وہ اپنی اور دوسری پارٹیز کے پہلے فرنٹ رنر بن گئے ہیں۔ یاد رہے، یہ اعلان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب ٹرمپ کی پارٹی ایوان ِنمایندگان میں لیڈ لینے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ ماہرین کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ ٹرمپ کا ووٹر آج بھی ان کے ساتھ ہے۔
خاص طورپر ان کا ”امریکہ فرسٹ“ کا نعرہ عوام میں بہت مقبول ہے۔ظاہر ہے کہ امریکی عوام،بالخصوص مڈل کلاس، جو پہلے عالمی مالیاتی بحران،پھر عالمی وبا اور اب یوکرین کی جنگ سے معاشی طور پر بری طرح متاثرہیں، چاہتے ہیں کہ امریکہ کی معاشی بحالی تیز سے تیز تر ہو۔ ٹرمپ پر ان کے مخالفین کاسب سے بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے بداخلاقی، بدتمیزی کو سیاست میں عام کیا، اپنے سیاسی حریفوں کی پگڑیاں اچھالیں، غیرحقیقی الزامات لگائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی وجہ سے امریکی معاشرے میں ایسی تقسیم دیکھنے میں آئی، جو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی، جس کے بہت سے منفی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ٹرمپ ایک قوم پرست لیڈر کے طور پر سامنے آئے، جو امریکہ جیسے مہاجرین پر مشتمل ملک کوزیب نہیں دیتا۔ آج جو مغربی دنیااوریوروپ میں قوم پرستی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے،اس کی سربراہی ٹرمپ ہی کے پاس ہے۔
اپنے دور میں ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے تین ججز لگائے،جن کی اس نظام میں بہت اہمیت ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عوام کو ٹیکس کی چھوٹ دی، مگر کورونا ان کے لیے سخت آزمائش کا باعث بنا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت ٹرمپ کی ناقص پالیسی کی وجہ سے ہوئی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوروناوائرس کی سب سے پہلی ویکسین انہی کی کوششوں سے اور ٹرمپ ہی کے دور میں تیار ہوئی۔ اور ان کے جانے سے پہلے لاکھوں امریکی ویکسین لگوا بھی چکے تھے۔
ویسے اس بات سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ خارجی محاذ پر امریکی اور مغربی اتحادی، ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ میں کام یاب امن معاہدہ کروانے کا کریڈٹ دیتے ہیں۔ ٹرمپ ہی کے دور میں دوحہ مذاکرات ہوئے، جن میں طے پایا کہ گزشتہ سال ستمبر تک امریکہ، افغانستان سے نکل جائے گا۔ ٹرمپ اب اپنی مہم کو کس ڈگر پر لے کر جاتے ہیں، یہ امرواقعی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی، کچھ بھی کر گزرتے ہیں، لیکن اب وہ پہلے کی طرح غیرسیاسی یا ناتجربہ کار نہیں رہے۔