حیدرآباد

رودِ موسی میں طغیانی کے 115 سال مکمل‘ ہولناک یادیں آج بھی تازہ

موسی ندی میں آئی طغیانی کے 115سال مکمل ہوگئے ہیں اور آج بھی افضل پارک میں موجود املی کا وہ درخت پوری آن بان شان سے کھڑا ہے جس پر طغیانی کے دوران 150لوگوں نے پناہ لی تھی۔

حیدرآباد: موسی ندی میں آئی طغیانی کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ’فورم فار بیٹر حیدرآباد‘ کے چیرمین ایم ویدا کمار نے کہاکہ موسی ندی میں آئی طغیانی کے 115سال مکمل ہوگئے ہیں اور آج بھی افضل پارک میں موجود املی کا وہ درخت پوری آن بان شان سے کھڑا ہے جس پر طغیانی کے دوران 150لوگوں نے پناہ لی تھی۔

ویدا کما رنے کہاکہ طغیانی کی ہولناک یادیں ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑدیتی ہیں۔ آج بھی طغیانی کو حیدرآباد کے لئے ایک بڑی آفت کے طور پر یاد کیاجاتا ہے۔ ویدا کمار نے کہاکہ اس سانحہ کے نتیجہ میں روشن خیال حکمرانِ وقت نے ماہر منصوبہ سازوں کی مدد سے بارش کے پانی کی موثر انداز میں نکاسی کو یقینی بنانے والے منصوبوں کو روبعمل لایا جس کی وجہ سے حیدرآباد ’جدید سٹی پلاننگ‘ کی مثال بن گیاہے۔

مذکورہ املی کے درخت کے زیرسایہ فورم فاربیٹر حیدرآباد نے دکن ہیریٹیج اکیڈیمی‘ سنٹر فار دکن اسٹڈیز (سی ڈی ایس)‘ جے بی آر آرکیٹیکچر کالج‘ ایس پی اے‘ جے این اے ایف اے یو یونیورسٹی او ر دیگر سیول سوسائٹیوں کے اشتراک سے طغیانی میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں ایک اجلاس منعقد کیاتھا۔

اس اجلاس سے اپنے سلسلہ خطاب کوجاری رکھتے ہوئے ایم ویدا کمار نے کہاکہ طغیانی نے کافی تباہی مچائی‘ بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان بھی ہوا مگر اس دوران ایک ایسا درخت بھی تھا جس کے سایہ میں آج ہم 115سال بعد بھی بیٹھے ہیں اس پر 150لوگوں نے پناہ لی تھی اور طغیانی سے اس درخت نے ان افراد کی جان بچائی۔

انہوں نے کہاکہ آج ہی کے دن 28 / ستمبر 1908 کو یہ ہولناک واقعہ پیش آیاتھا جس کی یاد فورم فار بیٹر حیدرآباد ہر سال اسی روز مناتا ہے۔ ویداکمار نے کہاکہ ہماری زندگیوں میں درختوں کا کافی اہم رول ہے۔ مختلف طبی پودوں کا استعمال کئی قسم کے امراض کو دور کرنے کے لئے کیاجاتا ہے۔

ہرقسم کے درخت، پودے‘ جڑی بوٹیاں ہمارے ماحول کا حصہ ہیں۔ لہٰذا ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس کاتحفظ کریں۔ انہوں نے کہاکہ اسی بات کویقینی بنانے کے لئے فورم فار بیٹر حیدرآباد‘ پچھلے 15سالوں سے اس قدیم تاریخی املی کے درخت کے نیچے طغیانی کی یادمناتا ہے۔ اور اس 115ویں برسی کے موقع پر ان تمام افراد کو خراج پیش کرتا ہے جنھوں نے مذکورہ طغیانی میں اپنی جان گنوائی۔ویدا کمار نے کہاکہ 1914میں ساتویں نظام عثمان علی پاشاہ نے طغیانی کے واقعہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے شہری ترقی بورڈ قائم کیا تھا۔

انہوں نے مکوشا گنڈم ویشویشوریا (1962-1861) کو طلب کیا تھا جو اسوقت کے معروف انجینئر تھے اور دو آبی ذخائر کی تعمیر اور نکاسی آب کے نظام کو موثر بنانے کا مشورہ دیاتھا۔ ویدا کمار نے کہاکہ عثمان ساگر کی تعمیر 1920اور حمایت ساگر کی تعمیر1927میں عمل میں آئی تھی۔

ویدا کمار نے کہاکہ ان دونوں آبی ذخائر نے نہ صرف شہر کو سیلاب کے خطرے سے بچایابلکہ عوام کو پینے کے میٹھے پانی کی سربراہی کے بشمول آبپاشی کو بھی یقینی بنایاہے۔ اس طرح شہری ترقی بورڈ نے شہر کی منصوبہ بندی کو اہمیت دی اور شہری سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے۔

ویدا کمار نے آصف جاہ سابع کے کارناموں پر مزیدروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ باغات‘کھلے مقامات‘ کھیل کود کے میدان‘ کچی آبادیوں کی صفائی‘ ہاوز نگ کالونیوں کی تعمیر‘ بارش کے پانی کی نکاسی‘ پینے کے پانی کا نظام‘ موسی ندی کے دونوں کناروں پر مضبوط پشتوں کی تعمیر کے ذریعہ موسی ندی کی خوبصورتی کو دوبالا کردیاتھا۔ویدا کمار نے کہاکہ کئی اہم تاریخی عمارتیں بشمول ہائی کورٹ‘ سٹی کالج‘ دواخانہ عثمانیہ‘آصفیہ لائبریری موسی ندی کے کنارے پر تعمیر کئے گئے۔

معروف انجینئرس جیسے سر علی نواب جنگ‘ خدمت یار جنگ نے ان ترقیاتی کاموں میں کافی اہم رول ادا کیاہے۔ ویدا کمار نے حکومت تلنگانہ کو مشورہ دیاکہ حیدرآباد میٹروپولٹین علاقے کے لئے ایک ’ماسٹر پلان‘ ترتیب دیں اور ڈرنیج ماسٹر پلان بھی بنائیں اورشہری علاقوں کو سیلاب جیسی صورتحال سے بچانے کے لئے جنگی خطوط پر اس کام کو انجام دیں۔ اس موقع پر آنند راج ورما‘ پروفیسر انور خان کے علاوہ دیگر نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔