دہلی

مدارس اسلامیہ کے نصاب میں دینی وعصری علوم کی شمولیت وقت کی اہم ضرورت:مولانا فضل الرحیم مجددی

مدارس اسلامیہ کے نصاب میں عصری وفنی علوم کی تعلیم ہمارے اسلاف کی فکر کے عین مطابق ہے۔علم الادیان اورعلم الابدان دونوں کاہمیں تعلیم دی جانی چاہئے، علم مقصود کی تعلیم از حد ضروری ہے اس طرح عصری علوم کی تعلیم بھی ضروری ہے“۔

نئی دہلی: مدارس اسلامیہ میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم اور صنعت و حرفت پر زور دیتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری اور جامعتہ الہدایہ جے پور کے سربراہ مولانامحمد فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں
رانچی میں مسلم پرسنل لابورڈ کی وقف کانفرنس
اسلام کیخلاف سازشیں قدیم طریقہ کار‘ ناامید نہ ہونے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا مشورہ

 اگر بدلتے حالات کے ساتھ مدارس کے نصاب میں تبدیلی ہوتی رہتی تو مدارس سے علوم اسلامیہ کے ماہرین کے ساتھ عصری علوم اورصنعت وحرفت کے ماہرین بھی پیداہوتے رہتے۔

انہوں نے یہ بات ’مدارس میں دینی وعصری تعلیم کا م امتزاج اورچیلنجز‘کے موضوع پرجامعہ ہمدردمیں منعقد دو روزہ بین الاقوامی سیمینار و ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ عربی، انگریزی،اردو، ہندی زبانوں کے ساتھ علاقائی زبانوں میں دسترس ومہارت رکھنے والے بھی پیدا ہوتے رہتے تو ہم تعلیمی، معاشی اورسیاسی میدانوں میں دیگر قوموں سے پیچھے نہیں رہتے آج ہندوستان کے مسلمان ہر محاذ پر پسماندگی کے شکار ہیں۔

انہوں نے کہاکہ جامعۃالہدایہ جے پور نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم کا بہترین نظم کیا ہے اورصنعت وحرفت کی بھی تعلیم کا نظم کیاہے، جامعہ نے اسلامی ماحول میں امت کے نونہالوں کو معمولی فیس میں تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے کے لیے راجستھان بورڈ سے منظورشدہ چارانگلش میڈیم اسکول کو بھی قائم کیاہے۔

 اس کے ساتھ ہی سول سروسیز کے امتحانات کے لیے کریسنٹ اکیڈمی کو قائم کیا۔ جامعہ امت کی سربلندی کے لیے سرگرم عمل ہے“۔انہوں نے کہاکہ ہندوستان کے مدارس اورتعلیمی اداروں کے منتخب طبقہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”اسلام میں علم کی دوہی تقسیم ہے: ایک علم نافع دوسرا علم غیر نافع۔اسلام نے نیک مقاصد کے تحت تمام علوم اورزبانوں کو سیکھنے کی اجازت دی ہے، اللہ تعالیٰ نے زبانوں کے وجود کو اپنی نشانیوں میں شامل کیا ہے۔

مولانا مجددی نے کہا کہحضرت زید بن ثابت ؓ کئی زبانیں جانتے تھے جیسے عبرانی، قبطی، رومی وغیرہ یہودیوں کواگرکوئی خط بھیجاجاتا یا ان کے پاس کوئی خط آتا تو زید اس کو پڑھ اورلکھ لیا کرتے تھے۔انہوں نے کہا کہعہد نبوی میں سیاسی دستاویزات کاتبادلہ شروع ہوگیاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ میں چند کو ایشیا اورافریقہ کی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا۔

 زبان پر عبور کے بعد ان کو بحیثیت ترجمان مقرر کیا۔انہوں نے کہا کہ مسلم حکومتوں نے بھی مختلف علوم وفنون اورزبانوں کو سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی۔

اسلامی کتابوں کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کراکر عام کیااور مختلف زبانوں کی مفید کتابوں کو عربی، فارسی، ترکی اوراردو وغیرہ میں منتقل کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ دنیا کی کوئی بھی زبان ہو اس کو سیکھنے کا مقصد داعیانہ فرائض انجام دیناہو یا اقتصادی طورپر مستحکم ہونا ہو اسلام میں دونوں مستحسن ہے“۔

پروفیسر سعود عالم صاحب قاسمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ”مدارس میں دینی وعصری تعلیم کا امتزاج امکانات اورچیلنجز“ کے موضوع پرکلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ”مدارس اسلامیہ میں نصاب تدریس کے مرکز ی موضوعات مثلاً قرآن،حدیث اورفقہ کو برقرار رکھتے ہوئے ہر دوسرے امدادی علوم میں غور وفکر کرکے اضافہ کیا جائے، اورمنتخب عصری علوم کے لیے گنجائش نکالی جائے۔

انہوں نے کہا کہ جامعۃ الہدایہ جے پور نے اپنے ادارہ میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کی تدریس میں پہل کی اورایک متوازن خاکہ پیش کیا، ڈیڑھ سوسال بعد دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داروں نے تقریباً چارہزار علماء کی موجودگی میں وفاق المدارس کے اجلاس منعقدہ دیوبند ۲۲۰۲ء؁ میں یہ اعلان کیا کہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لینے کے لیے طلبہ میٹرک یا ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آئیں۔

اگرمدارس نے پہلے ہی یہ مشورہ قبول کرلیا ہوتا تو ان میں مختلف علوم وفنون کے ماہرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی۔ مسلمانوں کی تعلیمی حالت بہترہوتی اوران کو حسرت سے دوسری قوموں کی طرف دیکھنا نہ پڑتا“۔

پروفیسر اخترالواسع صاحب نے مداس میں دینی وعصری تعلیم کا امتزاج: امکانات اورچیلنجز کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ”۷۵۸۱ء؁ سے پہلے ہمارے مدارس میں تمام علوم پڑھائے جاتے تھے میں اُسی قدیم مدرسے کی بازیافت کرنا چاہتاہوں،۷۵۸۱ء؁ کے بعد حالات ایسے بنے کہ مدارس اسلامیہ تحفظ شریعت اورتہذیب اسلامی کی بقا کے لیے قائم کئے جانے لگے۔

 مدارس اسلامیہ نے اردو زبان اوراردو صحافت کی بقا اورفروغ میں اہم رول اداکیا ہے، ہندوستان کو اسپین بننے سے بچایا اورغریب بچوں کی کفالت کے ساتھ تعلیم سے بھی آراستہ کیا، جامعۃ نظامیہ سے جہاں امام غزالی پیداہوئے وہیں عمرخیام بھی پیداہوئے“۔

مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند نے کہا ”مدارس میں عصری علوم کی شمولیت ضروری ہے، مولانامحمد قاسم نانوتوی نے جو نصاب مرتب فرمایاتھا اس میں اس زمانہ کے ضروری علوم بھی شامل کیا تھا۔

 مدارس اسلامیہ کے نصاب میں عصری وفنی علوم کی تعلیم ہمارے اسلاف کی فکر کے عین مطابق ہے۔علم الادیان اورعلم الابدان دونوں کاہمیں تعلیم دی جانی چاہئے، علم مقصود کی تعلیم از حد ضروری ہے اس طرح عصری علوم کی تعلیم بھی ضروری ہے“۔

پروفیسر فہیم اختر ندوی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نیکہا کہ”جامعۃ الہدایہ کا نصاب متوازن صاب ہے، اس سے مدارس اسلامیہ کو استفادہ کرنا چاہئے اورمدارس اسلامیہ کے نصاب میں عصری علوم کو شامل کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے“۔

اس پروگرام میں پروفیسر افشار عالم وائس چانسلر جامعہ ہمدرد ہلی، پروفیسر اجے کمار سنگھ، ڈاکٹر راشد حسین جامعہ ہمدرد، ڈاکٹر عبدالرقیب صاحب حیدرآباد، پروفیسر عبید اللہ فہد صاحب فلاحی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مولاناطاہرمدنی ناظم جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ، ڈاکٹر عبدالقدیر شاہین گروپ بیدر، مولانا علاء الدین ندوی استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ،ڈاکٹر صفیہ عامرجامعہ ہمدرد، ڈاکٹر نجم السحر جامعہ ہمدرد دہلی نے کلمات تشکر پیش کیا۔