مضامین

حزبِ اقتدار کا ذہنی دیوالیہ پن

ڈاکٹر محمد صفوان صفوی

لوگ کہتے ہیں کہ حد سے زیادہ محبت اور حد سے زیادہ دشمنی انسان کو اندھا بنا دیتی ہے۔ یہی کیفیت آج ملک کی حکمراں جماعت بی جے پی کی ہے۔ وہ مسلم دشمنی اور حسد سے اندھی ہوچکی ہے۔ یوں تو اس کی پالیسیاں روزِ اول سے ہی اسلام اور مسلم مخالف رہی ہیں۔ دوسری بار اقتدار میں آنے کے بعد اس کے حوصلے زیادہ بڑھ گئے، اس نے اسلام اور مسلمانوں کی ایذا رسانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن حالیہ دنوں کرناٹک میں خلافِ توقع شکست کھانے کے بعد اس کی حالت ایک زخم خوردہ شیرکی سی ہوگئی ہے۔ اب اسے آئندہ انتخابات میں اپنی کرسی اْلٹتی ہوئی معلوم ہو رہی ہے اس لیے غصے کی جھانجھ میں وہ ایسی حرکتیں کر رہی ہے کہ ملک اور بیرونِ ملک ہرجگہ اس کا مضحکہ اڑایا جارہا ہے.۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا وہ جھنجھلاہٹ اور غصے میں ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہو گئی ہو۔
پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح صدرِ جمہوریہ کے ہوتے ہوئے وزیر اعظم کے ہاتھوں انجام پانا بھی ایک قسم کی آمریت کی مثال ہے۔ اور ایک جمہوری ملک کی پیشانی پر بدنما داغ۔ سب جانتے ہیں کہ ملک کا سب سے پہلا شہری صدر جمہوریہ اور سب سے بڑا عہدہ صدرِ جمہوریہ کا ہوتا ہے، اس کے بعد ہی کسی کا۔ اس کے باوجود صدرِ جمہوریہ کے ہوتے ہوئے وزیر اعظم کے ہاتھوں اس کا افتتاح ایسے ہونا جیسے صدرِ جمہوریہ کی ملک میں کوئی حیثیت ہی نہ ہو، یہ آمریت اور مطلق العنانی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جودنیاکی چند بڑی جمہوریتوں میں سے ایک ہے اور اپنے جمہوری نظریات کے باعث دنیا میں مشہور رہا ہے، اس قسم کی لاقانونیت نہایت شرمناک اور عبرتناک حادثہ ہے اور تاریخ ِ ہند کا سیاہ ترین باب بھی۔ حد تو یہ ہوئی کہ جب اپوزیشن جماعتوں نے اس پر واویلا مچایا اور حکمراں جماعت کی بد نیتی ظاہر کی تو بجائے اپنے کرتوت پر شرمندہ ہونے اور مصالحت کی کوشش کے افتتاح کے موقع پر ایسے ایسے ڈھونگ رچے گئے کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی کہ ایک جمہوریت اساس سیکولر حکومت میں ایوانِ زیرین و بالا کے افتتاح میں یہ کیا ڈھکوسلے ہورہے ہیں۔
جو حکومت اذان، نماز،حجاب اور مسلم کلچر کی مخالف رہی ہو، جو مسلمانوں کو دہشت گرد کہتی ہو، جو مسلمانوں کے عائلی قوانین میں چھیڑ چھاڑ کرکے اسلام کی صورت مسخ کردینے کے درپے رہی ہو،جو یکساں سول کوڈ اورہندو راشٹر کی علمبردار رہی ہو۔ کیا اس کا افتتاح کے موقع پر تلاوتِ کلام اللہ کرادینے سے گزشتہ زیادتیوں کی تلافی ہوجائے گی۔ انتہا یہ ہوئی کہ اس سلسلے میں عدالتِ عظمیٰ نے بھی اعراض اور بیرخی سے کام لیا ورنہ اس کا منصب تھا کہ وہ اس کا محاسبہ کرسکتی تھی۔ اس سے اہلِ عقل ودانش سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں ان کے پنجے کتنے مضبوط ہیں اور کس قدر لوگوں کی ذہنیتیں مسموم کردی گئی ہیں۔ گویا انھیں بادشاہت حاصل ہے اور ملک میں سب کچھ وہی ہوگا جو وہ چاہیں گے۔
چونکہ ہندوستان کے لوگوں کی ذہنیت کو مسموم کردیا گیا ہے، برسوں ان کے دماغ میں نفرتوں کے بیج بوئے گئے ہیں انہیں مسلمانوں کو غاصب، دہشت گرد اور بِدیسی سمجھنے کا سبق پڑھایا گیا ہے، شاید اسی لیے انھیں حق۔۔۔۔۔حق نظر نہیں آتا ورنہ جو انصاف پسند شہری ہیں اور ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ سے واقف ہیں، وہ جان رہے ہیں کہ ملک کی جمہوریت کا خون کیا جارہا ہے اور یہ خون رائیگاں جانے والا نہیں ہے، لیکن نفرتوں کے سوداگر کو اس بات کا بھی احساس باقی نہیں رہا کہ دنیا ان کو کیا سمجھ رہی ہے اور مسلم دشمنی میں ان سے کیا کیا حرکتیں سرزد ہورہی ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مسلم دشمنی تو ان کا ہر زمانے میں شعار رہا ہے، لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے اس میں اتنا غْلو ہوگیا ہے کہ وہ مضحکہ خیز قسم کی حرکتیں کرنے لگے ہیں۔ ان سے جہاں ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا حال معلوم ہوتا ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اب ان کے دن نزدیک آگئے ہیں اور جلد ہی ان کی نیّا غرق ہونے والی ہے۔ کچھ دنوں سے قومی اور ریاستی سطح پر ان کے جتنے بھی لیڈر ہیں وہ میڈیا والوں کی مدد سے بساط بھر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی گندہ مغزی اور دریدہ دہنی کا ثبوت دے رہے ہیں اور اس سے مقصود صرف مذہبی جذبات کو اشتعال دے کر اپنا اْلو سیدھا کرنا ہے لیکن ان کی اس قسم کی حرکتوں سے اب زیادہ دنوں تک آنکھ میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی، اب ان کی عیاری کی حقیقت کھلتی جارہی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ ہندوستان کے انصاف پسند عوام انھیں عین موقع پر ٹھینگا دکھادے۔
جس دن سے پارلیمنٹ کا افتتاح ہوا ہے اور اپوزیشن کے لیڈروں نے اس میں شرکت نہیں کی ہے، بی جے پی ایسا معلوم ہوتا ہے مخبوط الحواس ہوگئی ہے نہ صرف یہ کہ اس پارٹی کے لیڈر بلکہ اس کی حلیف پارٹیاں بھی جگہ جگہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزیاں کر رہی ہیں اور ایسے بیانات دے رہی ہیں جن سے مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ ہوجائیں اور وہ اوٹ پٹانگ حرکتیں شروع کردیں لیکن مسلمانوں نے بہت صبرو ضبط سے کام لیا ہے۔ آسام کے وزیرِ اعلیٰ ہیمنت بِسوا شرما اور بی جے پی کے قومی ترجمان سدھانشو تریویدی نے مسلمانوں کے خلاف کیا کیا زہر نہ اُگلا۔ اگر ہندوستان میں واقعی جمہوریت زندہ ہوتی تو یہ لوگ قانون ساز ایوانوں کی بجائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔کل ہی کی بات ہے کہ مدھیہ پردیس کے وزیر اعلیٰ نے بھی اسی قسم کا ایک متنازعہ بیان حجاب اور علامہ اقبالؒ کے تعلق سے دیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ کسی نجی اسکول کو بچیوں کو اسکارف باندھ کر آنے پر مجبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ کسی ایسے شخص کی اردو دعا اسکول میں پڑھنے کی اجازت دی جائے گی جو ہندوستان کے بٹوارے کا ذمّہ دار تھا۔۔ ان کی مراد علامہ اقبال سے ہے، لیکن کیا علامہ اقبال بٹوارے کے ذمے دار تھے۔ کیا ۱۹۳۸ میں جب ان کا انتقال ہوا ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم ہوچکی تھی۔ کیا پاکستان کے لوگوں کے تسلیم کر لینے سے وہ نظریہ پاکستان کے خالق قرار پاسکتے ہیں۔ دراصل یہ باتیں کم علمی کی دلیل ہیں۔ علامہ اقبالؒ ایک آفاقی شاعر تھے انھیں کسی ایک ملک کی جغرافیائی حدودمیں قید کرنا ان کے اور ان کے آفاقی پیغام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ وہ پوری انسانیت کے شاعر تھے، ایسے آفاقی شاعر کے وجود اور پیدائش پر ہندوستانیوں کو فخر ہونا چاہیے نہ یہ کہ متنازعہ بیان دے کر ان کی توہین کی جائے۔ ان کے کلام سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اس کا پڑھنا قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ بی جے پی مسلمانوں کی تاریخ اور ان کی تہذیب کے پیچھے جس طرح لٹھ لے کے پڑی ہے وہ کوئی ڈھکی چْھپی بات نہیں ہے۔ آئے دن اس قسم کی خبریں آتی ہی رہتی ہیں۔گزشتہ دنوں دلی یونی ورسٹی کے بی اے کے نصاب سے بھی ان کے اسباق نکالے گئے ہیں، اس سے پہلے این سی ای آرٹی کے نصاب میں ردّ و بدل کیا گیا تھا۔ کیا ہندوستان کے لوگ اس سے ان کا منشا کیا ہے نہیں سمجھتے یقییناً سمجھتے ہیں ایک ہندو بھی سمجھ رہا ہے کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے یہ سب ڈرامہ کھیلا جارہا ہے ورنہ اہلِ سیاست کو مذہب سے کیا لینا۔ اور یہ دیس صرف ہندوؤں کا نہیں ہے، اس کی تزئین و آرائش میں مسلمانوں کا خونِ جگر بھی شامل ہے، دراصل یہ آپس میں نفرت کی دیوار کھڑی کرنا اور اس کے ذریعے سے اپنا ووٹ بینک مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ علامہ اقبال تو محبت کے پیغامبر تھے، وہ انسان کے دلوں کو جوڑنے کا کام کرتے رہے۔ جس قومیت کے نظرئیے سے مخلوقِ خدا مختلف قبیلوں میں بنٹتی ہو اس کے وہ سخت مخالف تھے۔ کون نہیں جانتا کہ ان کی رگوں میں ہندو خون گردش کر رہا تھا۔ وہ اپنے آباو اجداد کو لاتی و مناتی اور خود کو سومناتی کہا کرتے تھے۔ کیا ان کی حبّ الوطنی کوئی ڈھکی چْھپی چیز ہے۔ نہ جانے کتنی نظموں میں انھوں نے ہندوستان کی عظمت کے ترانے گائے ہیں۔ کیا کسی نے اس درجے کی حْب الوَطَنی کے جذبات سے پْر نظمیں کہی ہیں
ٹو ٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
وحدت کی لے سْنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
کیا اس قسم کے گیتوں کے خالق کو بٹوارے کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ دنیا اب ان کے جھکولوں میں آنے والی نہیں ہے۔ اسے پہلے ہی بہت فریب دیا جاچکا ہے اب مزید آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی اب وہ اہلِ سیاست کے سارے کھیل سمجھ چکی ہے اب انھیں جواب دینے کا وقت آرہا ہے۔
٭٭٭