ترواننتا پورم: دی کشمیر فائلس کے بعد اب اسی نوعیت کی ایک اور فلم ریلیز کے لئے تیار ہے جو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو بدنام کرنے، ان کیخلاف نفرت کا زہر پھیلانے اور سماج میں انہیں یکا و تنہا کرنے کے مذموم ایجنڈے کے تحت تیار کی گئی ہے۔
اس فلم کا نام دی کیرالہ اسٹوری ہے جس کا ٹریلر تمام سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس پر جاری ہوچکا ہے جبکہ فلم ہندی، تلگو، تامل اور ملیالم زبانوں میں ملک بھر کے سینما گھروں میں ریلیز کی جارہی ہے۔ ٹریلر دیکھنے سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ فلم کس مقصد کے تحت تیار کی گئی ہے۔
ٹریلر ریلیز ہونے کے ساتھ ہی اس فلم کی مخالفت بھی شروع ہوچکی ہے۔ خود کیرالہ میں وہاں حکمران سی پی آئی ایم کے قائدین اور وزرا اس کی ریلیز کی مخالفت کررہے ہیں۔ کیرالہ میں اپوزیشن کانگریس نے بھی اس کی ریلیز روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سی پی آئی (ایم) اور کانگریس نے آج ‘دی کیرالہ اسٹوری’ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اظہار خیال کی آزادی معاشرے میں زہر اگلنے کا لائسنس نہیں ہے اور یہ فلم ریاست کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے کے مقصد سے بنائی گئی ہے۔
سدیپتو سین کی لکھی کہانی اور ہدایت کاری میں بنی دی کیرالہ سٹوری کو کیرالہ میں مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والی تقریباً 32 ہزار خواتین و لڑکیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جبکہ ان اعداد و شمار پر ہی عوام یقین کرنے تیار نہیں ہے چہ جائیکہ فلم میں بتائے گئے واقعات پر یقین کرلیں۔
فلم میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے کہ 32 ہزار ھندو اور عیسائی لڑکیوں نے مذہب تبدیل کیا، بنیاد پرستی اختیار کی جس کے بعد انہیں ہندوستان اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے مشنوں میں تعینات کیا گیا۔
کیرالہ کے ریاستی وزیر ثقافت اور امور نوجوانان ساجی چیریان نے سخت الفاظ میں لکھے فیس بک پوسٹ میں کہا کہ یہ فلم سنگھ پریوار کے پروپیگنڈے کا حصہ ہے تاکہ سماجی برادریوں میں بدامنی پیدا کرنے کے ان کے آزمائے گئے اور آزمودہ ایجنڈے کو نافذ کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ کیرالہ ایک ایسی ریاست ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے جانی جاتی ہے… اس فلم کو سنگھ پریوار کی طرف سے ریاست کے سیکولر تانے بانے کو تباہ کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہئے… یہ سماج میں تقسیم اور بدامنی پیدا کرنے کی سازش ہے۔
چیریان نے کہا کہ اظہار خیال کی آزادی معاشرے میں زہر اگلنے کا لائسنس نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس طرح کے جعلی پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی پر غور کریں گے۔
کانگریس پارٹی نے کیرالہ کی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس متنازعہ فلم کی نمائش کی اجازت نہ دے کیونکہ اس کا مقصد جھوٹے دعووں کے ذریعے سماج میں فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنا ہے۔
ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر وی ڈی ساتھیسن نے فلم سازوں کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ واضح ہے کہ آنے والی فلم کا مقصد بین الاقوامی سطح پر ریاست کی شبیہ کو خراب کرنا ہے۔
کانگریس لیڈر نے مزید کہا کہ ایسی فلم کی نمائش کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے جس میں یہ جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہو کہ کیرالہ میں 32,000 خواتین کو اسلام قبول کرایا گیا ہے اور وہ آئی ایس آئی ایس کی رکن بن گئی ہیں۔
اداہ شرما کی اداکاری والی ’دی کیرالہ سٹوری‘ 5 مئی کو ملک بھر کے سینما گھروں میں ریلیز ہونے والی ہے۔
ستھیسن نے یہ بھی کہا کہ یہ اظہار خیال کی آزادی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اقلیتی گروہوں پر الزامات لگا کر سماج میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش اور سنگھ پریوار کے زہریلے ایجنڈے کے نفاذ کا ایک حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ فرقہ پرستی کا زہر اگل کر کیرالہ کو تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا مذہبی دشمنی کو فروغ دینے کے اس دانستہ اقدام کےباوجود ریاست متحد رہے گی جیسا کہ اس کی روایت رہی ہے۔
حکمران سی پی آئی (ایم) کی یوتھ ونگ ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا (ڈی وائی ایف آئی) نے بھی فلم کی مخالفت کی اور کہا کہ اس کے ٹریلر نے خود مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
ڈی وائی ایف آئی نے فیس بک پوسٹ میں الزام لگایا کہ فلم بنانے والوں کی طرف سے سماج میں فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے اور ریاست کی شبیہ کو خراب کرنے کے لیے سنیما کے میڈیم کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ تنظیم نے فلم کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس ہفتے کے شروع میں جاری ہونے والے ایک پریس نوٹ میں فلم سازوں نے ایک پوسٹر کے ساتھ ریلیز کی تاریخ کا اعلان کیا جس میں ایک برقعہ پوش خاتون کو ایک ٹیگ لائن کے ساتھ دکھایا گیا ہے کہ ’’اس سچائی سے پردہ اٹھانا جو چھپائی گئی تھی۔‘‘
فلم کے مصنف اور ہدایت کار سدیپتو سین اس سے پہلے آسما، لکھنؤ ٹائمز اور دی لاسٹ مونک نامی فلمیں بناچکے ہیں۔
’دی کیرالہ اسٹوری‘ کو سن شائن پکچرز پرائیویٹ لمیٹڈ کی حمایت حاصل ہے جس کی بنیاد وپل امرت لال شاہ نے رکھی تھی، جنہوں نے فلم کے پروڈیوسر، تخلیقی ہدایت کار اور شریک مصنف کے طور پر کام کیا ہے۔