یوروپ
ٹرینڈنگ

لندن میں تعینات فلسطینی سفارتکار نے انٹرویو میں مغرب کی منافقت کی پول کھول دی (ویڈیو)

لندن میں تعینات فلسطینی سفارتکار حسام زملط نے مغرب کو آئینہ دکھا دیا، بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ فلسطینیوں پر 75 سال سے ظلم ہو رہا ہے، غزہ میں روز تشدد ہوتا ہے لیکن کبھی اس بات پر توجہ نہیں دی گئی۔

لندن: برطانیہ میں تعینات فلسطینی سفارتکار نے بی بی سی انٹرویو میں مغرب کی منافقت کا پول کھولتے ہوئے حماس کے حملے سے متعلق سوال کو بالکل غلط قرار دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق لندن میں تعینات فلسطینی سفارتکار حسام زملط نے مغرب کو آئینہ دکھا دیا، بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ فلسطینیوں پر 75 سال سے ظلم ہو رہا ہے، غزہ میں روز تشدد ہوتا ہے لیکن کبھی اس بات پر توجہ نہیں دی گئی۔

حسام زملط نے کہا کہ جب حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملہ ہوا تو ہمیں مذمت کے لیے بلا لیا گیا، میں پوچھتا ہوں کہ کتنی بار اسرائیلی رہنماؤں سے جنگی جرائم پر مذمت کرائی گئی؟انھوں نے کہا کہ اس مسئلے کو روکنے کا واحد حل بین الاقوامی قوانین کی پاس داری ہے، سب کے لیے یکساں قوانین رکھے جائیں۔

حسام زملط نے جب بی بی سی میزبان کو نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی پوری تاریخ سنا دی تو میزبان نے سوال کیا، کہ آپ یہ بتا دیں کہ حماس نے جو کیا ہے کیا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ یہ درست سوال نہیں ہے، میزبان نے کہا یہ اہم سوال ہے، زملط نے کہا نہیں نہیں یہ بالکل بھی اہم سوال نہیں ہے۔

سفارتکار نے کہا حماس تو ایک مزاحمتی گروپ ہے، اور آپ ایک فلسطینی نمائندے سے بات کر رہے ہیں، میں یہاں اپنے لوگوں، فلسطینی لوگوں کی نمائندگی کر رہا ہوں، اگر کسی نے کسی کی مذمت کرنی ہے تو شہریوں پر بمباری کی مذمت ہونی چاہیے، حماس فلسطینی حکومت نہیں ہے، اور اسرائیل ایک منظم فوج رکھتی ہے، اور قابض اور مقبوض کو مساوی نہ بنائیں۔

میزبان نے پھر سوال کیا کہ آپ نے سویلیئنز کو مارنے پر اسرائیل کی مذمت کی، تو کیا سویلیئنز کو مارنے پر حماس کی بھی مذمت کرتے ہیں؟ سفارتکار زملط نے کہا ’’لوئس، آپ نے کتنی مرتبہ اسرائیلی حکام سے اس پر انٹرویو کیا ہے؟ بتائیں کتنی مرتبہ؟

 اور کتنی بار آپ نے اسرائیلی جنگی جرائم کی لائیو کوریج کی ہے یہاں؟ کیا آپ نے ان سے خود کی مذمت کرنے کا سوال کیا ہے؟ میں جواب دیتا ہوں اس کا، نہیں آپ نے کبھی نہیں کیا۔

انھوں نے کہا آپ کو پتا ہے کہ میں اس سوال کا جواب دینے سے کیوں انکار کر رہا ہوں، کیوں کہ ہمیشہ فلسطینیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خود کی مذمت کریں، دیکھیں یہ سیاسی تنازع ہے، ایک عرصے سے ہمیشہ ہمارے حقوق کا انکار کیا گیا ہے، اس لیے درست آغاز یہ ہے کہ مسئلے کو جڑوں سے دیکھا جائے۔

واضح رہے کہ اسرائیلی فوج جنگ کے آداب بھی بھول گئی ہے، جنگی جنون میں مبتلا صہیونی فورسزغزہ میں خواتین، برزگ اور بچوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، اسکولوں، اسپتال اور ایمبولنس پر حملے کر رہی ہے، زخمیوں کو طبی امداد دینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

 فلسطین کے اسپتال زخمیوں سے بھرے ہیں اور وحشیانہ اسرائیلی کارروائی میں ایک لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، اسرائیلی بربریت دیکھ کر ایک فلسطینی صحافی بھی رو دیا، سوشل میڈیا پر فلسطینی بچوں کی تصاویر دل دہلا رہی ہیں، ان کی آنکھوں کی چمک ظالموں کو اپنے حق پر ہونے کا پیغام دے رہی ہے۔