لارنس بشنوئی کے ٹی وی انٹرویو کیلئے پولیس اسٹیشن کو اسٹوڈیو بنایا گیا۔ تحقیقات کی ہدایت
پنجاب میں پولیس عہدیداروں نے جرائم پیشہ لارنس بشنوئی کو اسٹوڈیو جیسی سہولت فراہم کی تھی تاکہ وہ ایک نیوزچینل کو انٹرویو دے سکے۔

چندی گڑھ (منصف نیوز ڈیسک) پنجاب میں پولیس عہدیداروں نے جرائم پیشہ لارنس بشنوئی کو اسٹوڈیو جیسی سہولت فراہم کی تھی تاکہ وہ ایک نیوزچینل کو انٹرویو دے سکے۔ پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے یہ بات کہی۔
جسٹس انوپیندرسنگھ گریوال اور جسٹس لاپیتابنرجی پر مشتمل بنچ نے قیدیوں کی جانب سے جیل کے احاطہ میں موبائل فونس کے استعمال سے متعلق از خود کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارک کیا۔
عدالت نے کہا کہ پولیس عہدیداروں نے مجرم کو الکٹرانک آلات کے استعمال کی اجازت دی اور اسٹوڈیو جیسی سہولت فراہم کی تاکہ انٹرویو کیا جاسکے۔ اس اقدام سے جرم کو عظیم بناکر پیش کیا گیا ہے اور دیگر جرائم بشمول مجرم اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے جبری وصولی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
پولیس عہدیداروں کے ملوث ہونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجرم اور اس کے ساتھیوں نے رشوت دی ہوگی۔ اسی لئے اِس کیس کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ بنچ نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے اس فیصلہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہ بشنوئی کی جانب سے دیئے گئے انٹرویو سے متعلق کیس کی رپورٹ کو منسوخ کیا جائے۔ واضح رہے کہ بشنوئی ایک پنجابی گلوکار شبھ دیپ سنگھ سدھو عرف سدھو موسے والا کے قتل کا مشتبہ ملزم ہے۔
عدالت نے کہا کہ یہ انٹرویو جیل کے احاطہ میں ہوا۔ جبکہ سی آئی اے کے ارکان عملہ اور پنجاب پولیس کے سینئر عہدیدار بھی موجود تھے۔ پولیس اسٹیشن کے آفیسر انچارج کے دفتر کا انٹرویو منعقد کرنے اسٹوڈیو کے طورپر استعمال کیا گیا تھا۔ سی آئی اے اسٹاف کے احاطہ میں باضابطہ وائی فائی انٹرویو کرنے کے لئے فراہم کیا گیا تھا جو مجرمانہ سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔