Uncategorized

ختم نبوت پر ایمان کا عملی تقاضہ اور ہندوستانی مسلمان: صاحبزادہ الحاج ذبیح اللہ حسینی کا بیان

ماہ ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی عام طور پر ہندوستان میں جلسوں کا آغاز ہوجاتا ہے، خاص طور پر حیدرآباد میں تو لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور چند بڑے بڑے جلسوں کا بھی انعقاد عمل میں آتا ہے۔

حیدرآباد: ماہ ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی عام طور پر ہندوستان میں جلسوں کا آغاز ہوجاتا ہے، خاص طور پر حیدرآباد میں تو لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور چند بڑے بڑے جلسوں کا بھی انعقاد عمل میں آتا ہے۔

متعلقہ خبریں
حیدرآباد: اردو گھر میں ٹی ایس ٹی یو کے زیر اہتمام تقریری مقابلے
17 / ستمبر کے دن سیاسی جلسوں پر پابندی: تلنگانہ گورنمنٹ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے 1500 برس مکمل، تنظیم فوکس حیدرآباد کی جانب سے تحریری مقابلے کا اعلان
میلاد النبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی برکتیں: مولانا سید صغیر احمد نقشبندی قادری
پرانے شہر میں پولیس کا فلیگ مارچ

ان جلسوں میں داد و تحسین کے نعروں کے درمیان ایک طرف نبی آخر الزماںؐ کو تمام عالموں کے لیے رحمت بتاتے ہیں اور دوسری طرف لاکھوں کی تعداد میں جمع ازدہام میں سوائے مسلمانوں کے کوئی نظر نہیں آتا۔

صاحبزادہ الحاج سید ذبیح اللہ حسینی نے اپنے بیان میں کہا کہ حضور اکرمؐ کی ختمیت پر ایمان لانے کا ایمانی تقاضہ یہ ہے کہ بعد از خاتم النبیینؐ ہر مدعی نبوت کو کافر، کاذب اور دجال سمجھا جائے اور یقین کامل رکھا جائے کہ حضور اکرمؐ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آ سکتا۔

اس کے ساتھ ہی ختم نبوت پر ایمان لانے کا عملی تقاضہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی گوشہ میں حضور اکرمؐ کے علاوہ کسی اور کا کلمہ نہ پڑھا جائے تاکہ اعلانِ ختم نبوت کا حقیقی مقصد پورا ہو۔ اور ہزارہا ہادیانِ اقوام کی امتوں کی شکل میں بٹی ہوئی منتشر انسانیت اس مرکز توحید پر جمع ہوجائے۔

حجۃ الوداع کا خطبہ اس بات کا غماز ہے کہ یہ پیام نبوت کو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں تک اسلام پہنچانے کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہے۔ کیونکہ اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے تو کیا ہم خاص طور پر ہندوستانی مسلمان اپنی ذمہ داری محسوس کر رہے ہیں۔

عوام تو عوام، علما کرام اور بڑے بڑے جلسوں کے داعی حضرات بھی یہ محسوس نہیں کر رہے ہیں کہ ہمارے جلسوں کے ذریعے ہم نعمت ختم نبوت کو مسلمانوں تک محدود کر رہے ہیں جبکہ ہم کم از کم اس ماہِ مبارکہ کو ماہِ تبلیغ اسلام کے طور پر مناتے اور اپنے غیر مسلم بھائیوں کو حضور پرنورؐ کا حقیقی پیام سناتے۔

شمالی ہند اور بیرون ہند سے علمائ کو بلایا جاتا ہے اور صرف مسلمانوں کو سنایا جاتا ہے بجائے اس کے کہ غیر مسلم برادران وطن کے ذمہ داروں کو بلایا جائے اور ان کی مقدس کتابوں، وید، پران، شاستر و گیتا وغیرہ سے انہیں اسلام سمجھایا جائے۔

اس سے نہ صرف ہمارا فرضہ کسی حد تک ادا ہوگا بلکہ آپس کی غلط فہمیاں بھی دور ہوسکتی ہیں۔ میری تمام ذمہ دارانِ جلسہ و علمائ کرام سے گزارش ہے کہ کم از کم آنے والے دنوں میں منعقد ہونے والے جلسوں کو تبلیغ اسلام کا ذریعہ بنا کر عند اللہ سرخ رو ہوں۔

جس طرح احمد مختار ہیں نبیوں میں امام
بس اسی طرح یہ امت ہے امام الاقوام