اضلاع کی دوبارہ تنظیم جدید کے فیصلہ پر رئیل اسٹیٹ تاجرین پریشان
حکومت تلنگانہ کی جانب سے اضلاع کی منصوبہ بند انداز میں تنظیم جدید کرنے کے فیصلہ سے ریاست کے رئیل اسٹیٹ تاجرین پریشان ہیں۔

حیدرآباد: حکومت تلنگانہ کی جانب سے اضلاع کی منصوبہ بند انداز میں تنظیم جدید کرنے کے فیصلہ سے ریاست کے رئیل اسٹیٹ تاجرین پریشان ہیں۔
ہمیشہ اضلاع کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا جس سے رئیل اسٹیٹ کو فروغ حاصل ہوا اور اراضیات کی قیمتوں میں اضافہ درج ہوا.حکومت کی آمدنی بھی بڑھتی گئی کیونکہ اضلاع کی تشکیل سے بنیادی ڈھانچہ کو ترقی ملتی ہے
جیسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرآفسس اوردیگر سرکاری دفاتر کی تعمیر سے عوام کو سہولت رہتی ہے اطراف و اکناف کے دیہاتوں سے آبادی اضلاع کی طرف منتقل ہوتی ہے انہیں رہائش کے لئے رئیل اسٹیٹ تاجرین پر انحصار کرنا پڑتا ہے تاہم اگر اضلاع کی تعداد کم ہو جاتی ہے تو اس سے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار سست پڑ سکتا ہے۔
سابق میں بی آر ایس حکومت نے اضلاع کی تعداد کو دس سے بڑھا کر 33 کر دیا تھا مگر حالیہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت میں آئی کانگریس پارٹی نے اضلاع کی تعداد کو 33 سے کم کرنا چاہتی ہے، اس کے لیے ایک عدالتی کمیشن کے تقرر کا امکان ہے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ موجودہ پارلیمانی حلقوں کی طرح اضلاع رہیں گے۔
اگرچہ کہ اس ضمن میں خیال پیش کیا گیا ہے مگراس سمت میں کوئی بنیادی کام شروع نہیں ہوا ہے. دوسری طرف ریاست کے رئیل اسٹیٹ تاجرین نے حکومت کے منصبوں پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ ایک ممتاز رئیل اسٹیٹ ماہر نے کہا ڈی سنٹرلائزیشن ہمیشہ فائدہ مند ہوتی ہے،
لیکن اگر اضلاع کی تعداد کم کی جاتی ہے تو ہیڈ کوارٹر کو فائدہ ہو سکتا ہے مگر آس پاس کے علاقوں میں زمینوں کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔
اگر سرمایہ پہلے ہی مشغول کیا گیا ہے تو وہ ختم نہیں ہوگا۔ ڈی سنٹرلائزیشن شہریوں کے لیے اچھا ہے کیونکہ اپنے کاموں کی انجام دہی کے لیے انہیں دور دراز مقامات پر جانے کی ضرورت نہیں پڑیگی۔ اس کے علاوہ اس اقدام سے ترقی اور خوشحالی ممکن ہو سکے گی۔