نام نہاد ‘دھرم سنسد’ تنازع پھر سپریم کورٹ پہنچا
چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے اس توہین عدالت کی درخواست پر فوری سماعت کے لیے وکیل پرشانت بھوشن کی درخواست پر غور کرنے کی یقین دہانی کرائی اور ان سے کہا کہ وہ اس درخواست سے متعلق اپنی درخواستیں ای میل کے ذریعے بھیجیں۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے غازی آباد میں یتی نرسمہانند فاونڈیشن کو نام نہاد دھرم سنسد منعقد کرنے کی ریاستی حکومت کی اجازت کے معاملے کو کئی سابق سینئر نوکرشاہوں اور سماجی کارکنوں نے عدالت کی توہین قرار دیتے ہوئے ریاستی پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے۔
پیر کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے اس توہین عدالت کی درخواست پر فوری سماعت کے لیے وکیل پرشانت بھوشن کی درخواست پر غور کرنے کی یقین دہانی کرائی اور ان سے کہا کہ وہ اس درخواست سے متعلق اپنی درخواستیں ای میل کے ذریعے بھیجیں۔
یہ عرضی 17 سے 21 دسمبر کے درمیان غازی آباد میں یتی نرسمہانند فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مبینہ دھرم سنسد کی اجازت دینے کے معاملے میں دائر کی گئی ہے۔عرضی گزاروں نے غازی آباد ضلع انتظامیہ اور اتر پردیش پولیس کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست پر فوری سماعت کی مانگ کی ہے۔
درخواست گزاروں میں ریٹائرڈ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) افسر ارونا رائے، ریٹائرڈ آئی ایف ایس اشوک کمار شرما، دیب مکھرجی اور نوریکھا شرما کے علاوہ پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سعیدہ حمید اور سماجی محقق اور پالیسی تجزیہ کار وجیان ایم جے شامل ہیں۔
انہوں نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا کہ غازی آباد میں نام نہاد دھرم سنسد کی اجازت دینا سپریم کورٹ کے احکامات کی جان بوجھ کر توہین کا معاملہ ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ نے تمام قابل اور مناسب حکام کو فرقہ وارانہ سرگرمیوں اور نفرت انگیز تقاریر میں ملوث افراد یا گروہوں کے خلاف از خود کارروائی کرنے کی ہدایت دی تھی۔
عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے، ’’یہ یتی نرسمہانند فاؤنڈیشن کے ذریعہ غازی آباد میں 17-21 دسمبر کے درمیان منعقد ہونے والی دھرم سنسد کے پیش نظر ہے۔ "اس سنسد کی ویب سائٹ اور اشتہارات میں اسلام کے پیروکاروں کے خلاف بہت سے فرقہ وارانہ بیانات ہیں، جو مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔”
28 اپریل 2023 کو شاہین عبداللہ کی ایک رٹ پٹیشن پر عدالت عظمیٰ نے تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو بغیر کسی شکایت کے نفرت بھری تقریر کے معاملات میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153A، 153B، 295A اور 506 وغیرہ کے تحت از خود نوٹس لیتے ہوئے فوجداری مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دی تھی۔