سیاستمضامین

مسلمان مستقبل کی منصوبہ بندی کریں

بھارت کے مسلمان ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے اپنی اصلاح کی کوشش کئے اورنہ ہی حال سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے دستور کے تحفظ کیلئے کوئی اقدام کئے اور نہ ہی مستقبل کی منصوبہ بندی کا کوئی لائحہ عمل ان کے سامنے ہے۔
حال ہی میں بعض دانشورانِ وطن کی وزیر داخلہ سے بات چیت ہوئی‘ ان کا تاثر یہ تھا کہ بات چیت بہت ہی خوشگوار ماحول میں ہوئی اور مسلمانوں کو بات چیت کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیئے۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ملک کے حکمران ساری عوام کے حکمران ہیں۔ اس بات سے تو سبھی واقف ہیں لیکن اگر حکمرانوں کے رویہ پر نظر ڈالیں تو اس حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے کہ حکمران اپنے آپ کو صرف بی جے پی اور آر ایس ایس والوں کے حاکم سمجھتے ہیں اور ان کے رویہ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔
مسلمان آزادی کے بعد سے فلاح و بہبود سے زیادہ صرف ایسی گود کا سہارا لیتے ہیں جو ان کے مفادات کی تکمیل کرتا ہو لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاسی جماعتوں نے ان کو گود لینا بھی ترک کردیا اور فرقہ پرست زعفرانی ٹولہ تو ان کی جان کا دشمن بن کر مسلم مکت بھارت کا خواب دیکھ رہا ہے اور ہندوراشٹریہ کی دلی آرزو کی تکمیل کیلئے EVM میں دھاندلی کرتے ہوئے اقتدارپر قابض ہے اور ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کرکے سارے ماحول کو پراگندہ کردیا۔
مسلمان حسب عادت اپنوں ہی کو تنقید کا نشانہ بناکر خوش ہورہے ہیں۔ لیکن ان تنقیدوں کے بعد ان کے پاس کوئی قابل قبول لائحہ عمل بھی نہیں ہے۔ یہ افراد اور گروپس صرف تنقید ہی کو اپنا مقصد حیات بنائے ہوئے ہیں۔
مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی نے فرمایا تھا :
’’ اگر قوم کو پنچ وقتہ نمازی نہیں بلکہ تہجد گزار بنایا جائے لیکن ان کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے اور ملک کے احوال سے واقف نہ کروایا جائے تو ممکن ہے اس ملک میں تہجد تو دور‘ پانچ وقت کی نماز پر بھی پابندی عائد ہوجائے گی۔‘‘
ملک میں گاندھی جی کا فلسفہ ختم ہوگیا اور نہرو کا سیکولرازم ملیا میٹ ہوگیا اور زعفرانی ٹولہ ہٹلر کے نظریات کو سینے سے لگالیا اور اسی کو اپنا رہنما سمجھ بیٹھے اور اسی ظالم وجابر کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ملک کو دستور اور جمہوریت سے دور کررہے ہیں اور لاقانونیت عروج پر ہے لیکن عوام بیدار ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔اگر کسی جمہوری ملک میں دستور پر آنچ آتی ہے اور ملک کی سرحدیں غیر محفوظ بن جاتی ہیں اور غلط حکمرانی سے ملک بربادی کے دہانے پرپہنچ جاتا ہے اور قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہوتا ہے تو محب وطن عوام حرکت میں آکر ملک کی سلامتی کیلئے میدان عمل میں نکللتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں حب الوطنی کے جذبہ میں بھی کمی دکھائی دے رہی ہے ‘ اس کی بنیادی وجہ ملک میں ایک فسطائی نظریہ کا فروع ہے۔ یہ فسطائی نظریہ ملک میں فوری طور پر ظاہر نہیں ہوا یہ کام صدیوں سے خفیہ طریقہ سے جاری تھا لیکن اس کو لگام دینے میں جو کوتاہی ہوئی ہے اس کا ذمہ آرین طبقہ ہے جو حقیقت میں بھارت میں بیرون ملک سے داخل ہوئے جن کو ہم برہمن کے نام سے جانتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس طبقہ نے اپنے آباء و اجداد کی تقلید کرتے ہوئے ہٹلر کے نسلی امتیاز اور بالادستی کی پالیسی کو نہ صرف بھارت کی تمام ذاتوں پر اپنا دبدبہ اور بالادستی کے حصول کے لئے اپنالیا جس کی وجہ سے بھارت میں بزرگوں اور سیاسی قائدین نے جو طرز حکومت کا انتخاب کیا تھا وہ صرف75سالہ آزاد بھارت بکھر گیا۔ ان فسطائی طاقتوں کو ان کے مستحکم ہونے سے قبل ہی قابو کرلیا جاتا تو ملک میں آج ہٹلر کے فسطائی نظریہ کو فروغ حاصل نہ ہوتا اور بھارت کے دستور اور جمہوری نظام کی جگ ہنسائی نہ ہوتی۔
ہٹلر نے سارے یورپ پر ایک ہزار سال تک حکمرانی کا خواب دیکھا تھا لیکن یہ خواب 12سال میں چکنا چور ہوگیا۔ وہ اس قدر ظالم اور جابر تھا کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بننے والی ہر طاقت کو نیست و نابود کردیتا۔ ہٹلر اپنا ظلم اور تشدد کی حکومت اور اپنے جابرانہ خواب میں کامیاب نہ ہوسکا لیکن اس کے فنا ہونے کے بعد بھی اس کے نظریہ کو بھارت کے ایک طبقہ نے دوبارہ زندہ کیا اور اس نظریہ کی مدد سے بھارت کی سب سے بڑی وفادار ‘ مسلم اقلیت کی نسل کشی پر آمادہ ہوگئے۔ یہی مسلمان صدیوں اس ملک پر نہ صرف حکومت کئے بلکہ مقامی عوام کو اصول زندگی ‘ تہذیب و تمدن سے آراستہ کیا۔ انہوں نے اس دورمیں مسلم راشٹریہ کا نعرہ نہیں لگایا ‘ ان منصف اور عادل حکمرانوں کی نطر صرف اور صرف عوام کی فلاح و بہبود پر ہوتی اور ملک کا تمام انتظام برہمنوں کے ہاتھ میں تھا۔ اس زمانہ میں کمزور طبقات پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹے اس کی تمام تر ذمہ داری اعلیٰ ذات کے برہمنوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے کبھی بھی کمتر درجات سے حق اور انصاف کے سلوک سے اجتناب کیا او راپنے عدم مساوات کے بنیادی نظریہ کو فوقیت دی جس کی وجہ سے ملک کی تقسیم کے فوری بعد رام راج یا ہندوراشٹر کا قیام ممکن نہ ہوسکا۔
ایک بات عوام ذہن نشین کرلیں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے دو رخ ہیں اور یہ ٹولہ موقع اور محل کے حساب سے اپنے رویہ میں تبدیلی لاتا ہے ان کے کسی قول اور بات یا وعدہ کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اس ٹولہ نے بھارت کے عوام کو نفرت کے کینسر میں مبتلا کردیا اور اس مرض سے نجات کیلئے ایک منظم اور موثر عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔ جھوٹ ان کا مقصد حیات ہے۔ ہٹلر بھی جھوٹا تھا اور ان کے چیلے بھی جھوٹے ہیں۔
بھارت میں مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں اس کا حل صرف اور صرف اللہ کی رسی کو ایک مضبوط سیاسی اتحاد سے تھامنے میں ہے۔ نہ تو کسی سے بات چیت بارآور ہوسکتی ہے اور نہ حکمرانوں کی قصیدہ خوانی اور قدم بوسی سے کوئی حل سامنے آئے گا۔ خوابِ غفلت سے بیدار ہوجاؤ مستقبل میں آپ کو کوئی بیدار کرنے والا بھی نہیں ہوگا۔ وقت کو اور مہلت کو غنیمت جانو اور جاگو آنے والے ایام اچھے نہیں معلوم ہورہے ہیں۔ ملک تقسیم ہوا اس کی بنیادی وجہ بھی مسلمانوں سے نفرت تھی اور تقسیم کے کامل ذمہ دار بھی یہی زعفرانی طاغوت طاقتیں تھیں۔ جن مسلمانوں کو ہجرت عزیز تھی وہ نقل مکانی کرگئے لیکن جن کو اپنا وطن پیارا تھا وہ سیکولرازم کے گھناؤنے کھیل کا شکار ہوگئے اور ہمارے قدآور دانشوروں نے مسلمانوں کو جبریہ ہجرت سے روکا۔ آج ان دانشوروں کی روح یہ سوچنے پر مجبور ہوگی کہ آخر ملک کے تقسیم ہونے پر مسلمانوں کو ہجرت سے کیوں روکا؟
بھارت کے مسلمان 75سال بعد تو اس بات کو سمجھیں کہ کوئی ان کا ہمدرد اور بہی خواہ نہیں ہے‘ اب تو ہر بغل میں نفرت کا خنجر پوشیدہ ہے اور زبان پر رام ہے۔ سارا بھارت نفرت کی آغوش میں ہے اور اس نفرت کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔ جو لوگ اس نفرت کا ساتھ دے رہے ہیں‘ وہ یہ جان لیں کہ یہ نفرت کی آگ ان ساتھ دینے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور ملک برباد ہوجائے گا۔
بھارت کے OBC/ST/SC سب اپنی جگہ پر نہ صرف متحد ہیں بلکہ اپنے ٹی وی چینل چلارہے ہیں اور دن رات اپنے طبقہ اور ذات کی فلاح و بہبود اور اتحاد کے لئے مصروف ہیں۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ ایک دلت گروپ نے تو حال ہی میں آر ایس ایس کے ناگپور کے مرکزی دفتر پر جاکر آر ایس ایس کو للکارا اور اس گروپ نے اپنی ذات کی اس تحریک کو آگے بڑھانے سے اپنے قائد کو 40 کروڑ کے عطیات دیئے ۔ کیا بھارت کی کوئی مسلم تنظیم ایسی مثال دے سکتی ہے۔
بہوجن سماج اور مسلم سماج کو یکجا ہونا ہے ‘ دونوں کا دشمن مشترک ہے اور دونوں سماج ظلم اور دہشت اور فسطائی بربریت کا شکارہیں۔ بعض گوشوں سے اس قسم کے اتحاد کی کوشش ہورہی ہے لیکن ملک کی زعفرانی طاقتیں اس اتحاد کی کامیابی میں دلتوں کو سبز باغ دکھا کر ان کو مراعات مہیا کرکے مسلسل اس اتحاد کی کامیابی میں رکاوٹ بن رہے ہیں تاکہ ملک پر 3.5 فیصد برہمنوں کی بالادستی جاری ہے جس کا بنیادی فلسفہ سماج میں عدم مساوات کو فروغ دینا ہے۔
بھارت کے مسلمان انتہائی آزمائش کے دور میں داخل ہوچکے ہیں اور ان کی نظریہ مسلم سیاست دان ‘ دانشور اور علمائے دین کی جانب رہنمئی اور رہبری کی امید سے دیکھ رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں مسلمانوں کی رہنمائی ایک مضبوط مرکز سیاسی اورایک ناقابل تسخیر اتحاد کے ذریعہ کی جائے۔ انفرادی کوشش رائیگاں ہوجائیں گی آپ کا دشمن نہ صرف منظم ہے بلکہ عیاری‘ دھوکہ دہی اور ظلم و دہشت کا سہارا لے رہا ہے۔ ایک طرف کہتا ہے مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہی نہیں اور ان سے حق رائے دہی بھی چھین لیا جائے اور دوسری جانب چند حکمرانوں کے چاپلوسوں کو اکٹھا کرکے بات چیت بھی کرتا ہے اور یہ افراد اس مغالطہ میں آجاتے ہیں کہ مسلمانوں کو بات چیت کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔
مسلمان بیدار ہوجائیں کیوں کہ اب وقت دروازہ کھلا رکھنے کا نہیں ہے دروازہ کو ایک مضبوط سیاسی اتحاد کے ذریعہ قلعہ کی صورت دینے کا وقت ہے۔
سب سے پہلے بیلٹ پر انتخابات کا مطالبہ ہونا چاہیے اس کے بغیر طاغوتی طاقتوں کو شکست دینا نہ صرف داشوار بلکہ ناممکن ہے۔ مسلمان دستور کے محفاظ بن جائیں اور اپنے ہم خیال افراد کو ساتھ لیں اور تحفظ جمہوریت اور دستور کیلئے صف اول کے سپاہی بن جائیں ۔ جنگ آزادی میں بھی مسلمان صف اول میں تھے اور تحفظ دستور کی تحریک میں بھی بھارت کے مسلمانوں کو صف اول کاکردار ادا کرنا ہے۔
عام انتخابات سے قبل یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے قوی امکانات ہیں ‘ جمہوریت بالکل ختم ہوجائے گی ‘ سیکولرازم تو ختم ہوچکا ‘ مسلمان اس تعلق سے مغالطہ اور غفلت میں نہ رہیں۔ اپنی اور اپنے حقوق اور دین کی حفاظت کیلئے اجتماعی منصوبہ بندی اور باہمی مشاورت اور اتحاد سے کریں۔
ملک نراج کی کیفیت میں داخل ہوگیا اور قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہوچکا ۔ اب صرف نفرت کی حکمرانی جاری ہے۔ حکمران ٹولہ OBC/ST/SC کو پوری طاقت سے اپنی جانب راغب کرنے کوشاں ہے اس مقصد کیلئے کروڑہا روپیہ صرف ہورہا ہے۔ زعفرانی ٹولہ فکر مند ہے کہ یہ بہوجن سماج اگر ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو ان کی فرضی اکثریت کا پول کھل جائے گا اور ملک سے ان کی بالادستی کا خاتمہ ہوجائے گا زعفرانی ٹولہ مسلم سماج اور بہوجن سماج کے ممکنہ اتحاد سے خوفزدہ ہوکر مسلمانوں کو مراعات ان سے جبریہ اور غیر قانونی وغیردستوری طریقہ سے چھین کر کرناٹک کے لنگایت طبقہ کو اپنے ہندو دھرم میں شامل کرنے کے لئے ان مراعات کا کا اعلان کررہا ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے اور توجہ کے لائق ہے کہ ملک کا قبائلی طبقہ اور کرناٹک کا لنگایت طبقہ ہندو دھرم کو نہیں مانتا۔ تلنگانہ کے لمباڑے بھی مورتی پوجا نہیں کرتے۔
تحفظ دستور کیلئے عملی جدوجہد ناگزیر ہے ۔ اس مقصد کے حصول کیلئے حزب اختلاف کو صرف تحفظ دستور کے ایک ہی ایجنڈے پر متحد ہوکر دستور مخالف طاقتوں سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰