دہلی

سپریم کورٹ نے شہریت سے متعلق قانون کی دفعہ 6 ۔ اے کے آئینی جواز کو برقرار رکھا

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس سوریہ کانت، ایم ایم سندریش، جے بی پاردی والا اور منوج مشرا پر مشتمل ایک آئینی بنچ نے 4:1 کی اکثریت کے ساتھ قانونی دفعات کو چیلنج کرنے والی عرضی کو خارج کردیا۔ جسٹس پارڈی والا نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے شہریت ایکٹ 1955 کی دفعہ 6- اے کے آئینی جواز کو برقرار رکھتے ہوئے جمعرات کو اکثریتی فیصلے کے ساتھ اسے چیلنج کرنے والی عرضی کو مسترد کر دیا۔

متعلقہ خبریں
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز
خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے
کشمیر اسمبلی میں 5 ارکان کی نامزدگی سپریم کورٹ کا سماعت سے انکار
برج بہاری قتل کیس، بہار کے سابق ایم ایل اے کو عمر قید

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس سوریہ کانت، ایم ایم سندریش، جے بی پاردی والا اور منوج مشرا پر مشتمل ایک آئینی بنچ نے 4:1 کی اکثریت کے ساتھ قانونی دفعات کو چیلنج کرنے والی عرضی کو خارج کردیا۔ جسٹس پارڈی والا نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا۔

فیصلے کا کچھ حصہ پڑھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بنگلہ دیش کی جنگ کے بعد کے تناظر میں اس شق کے مقصد کو سمجھنا چاہیے۔ آئینی بنچ کی طرف سے انہوں نے کہا کہ آسام معاہدہ غیر قانونی نقل مکانی کے مسئلے کا سیاسی حل تھا اور دفعہ 6 اے ایک قانون سازی کا حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکشن 6- اے انسانی ہمدردی کے خدشات اور مقامی آبادی کے تحفظ کی ضرورت کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔

جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین ملکی قوانین کو زیر نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 6 ۔ اے آئینی طور پر درست ہے۔ یہ ایک درست قانون ہے۔ بنچ نے کہا "دفعہ 6 ۔ اے ان لوگوں سے متعلق ہے جو آئینی دفعات کے تحت نہیں آتے، یعنی جو 26 جولائی 1949 کے بعد ہجرت کر گئے ” ۔

قابل ذکر ہے کہ دفعہ 6- اے کو 15 اگست 1985 کو آسام معاہدے پر دستخط کے بعد شامل کیا گیا تھا۔ سیکشن 6 ۔ اے کے تحت، جو لوگ یکم جنوری 1966 سے 25 مارچ 1971 کے درمیان ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں اور آسام میں مقیم ہیں انہیں ہندوستان کے شہری کے طور پر اپنے آپ کو رجسٹر کرنے کی اجازت ہوگی۔ سپریم کورٹ نے 12 دسمبر 2023 کو سماعت مکمل ہونے کے بعد اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔