بعض حالات میں خواتین کا محرم کے بغیر سفر کرنا
کل بہت سے لوگ بیرونی ملکوں میں کام کرتے ہیں، معاشی اور قانونی دشواریوں کی وجہ سے بیوی بچوں کو اپنے مقام پر چھوڑدیتے ہیں، اگر وہ اپنی بیوی کو بلانا چاہیں اس کے لئے خود آنے اور لے کر جانے میں کافی اخراجات ہوجاتے ہیں، ایسی صورت میں کیا ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص ان کی بیوی کو ہندوستان میں فلائٹ کے ذریعہ پہنچا دے
سوال:- آج کل بہت سے لوگ بیرونی ملکوں میں کام کرتے ہیں، معاشی اور قانونی دشواریوں کی وجہ سے بیوی بچوں کو اپنے مقام پر چھوڑدیتے ہیں، اگر وہ اپنی بیوی کو بلانا چاہیں اس کے لئے خود آنے اور لے کر جانے میں کافی اخراجات ہوجاتے ہیں، ایسی صورت میں کیا ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص ان کی بیوی کو ہندوستان میں فلائٹ کے ذریعہ پہنچا دے، شوہر جس ملک میں ہو وہ وہاں اس کو وصول کرلے، جب کہ جہاز میں اس کی بیوی کا چند گھنٹہ ہی گذرتا ہے اور بظاہر سفر بھی محفوظ ہوتا ہے ؟ (محمد اسلم، دلسکھ نگر)
جواب:- عورت کے سفر کرنے میں اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ فتنے سے محفوظ رہ سکے، اگر کوئی اس کا محرم رشتہ دار ہی ساتھ ہو ؛ لیکن اسی شخص سے یا اس کے رفقاء سفر میں سے کسی اور شخص سے- جہاں جارہی ہو- عزت و آبرو کو خطرہ درپیش ہو تو ایسی صورت میں اس محَرم کے ساتھ بھی اس کا سفر کرنا جائز نہیں ہوگا،
اور اگر بعض قرائن موجود ہوں اور اس پر تجربات کی شہادت ہو کہ وہ محرم کے بغیر امن و امان کے ساتھ سفر کرسکتی ہے اور اس کی عزت و آبرو کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے، تو خصوصی حالات میں عورت محرم کے بغیر بھی سفر کرسکتی ہے، آپ نے جو صورت دریافت کی ہے، اس میں عام طورپر فتنوں کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے، ایئر پورٹ کے اندر بھی سخت نگرانی ہوتی ہے اور خاتون عملہ بھی دیکھ ریکھ پر مامور ہوتی ہے، جہاز کے اندر بھی محفوظ ماحول ہوتا ہے اور عملہ ہر طرح کی شکایت کو دُور کرنے کے لئے مستعد رہتا ہے اور فضائی سفر میں یہ سہولت ملتی ہے کہ اگر پورئر لے لیا جائے یا ایئر لائن سے کہہ دیا جائے تو وہ مسافر کو بحفاظت جہاز میں سوار کرادیتا ہے اور جہاں سفر کی منزل ہوتی ہے، وہاں بھی وہ اپنے نمائندوں سے تمام کارروائیاں انجام دلاتے ہیں اور باہر بیرونی گیٹ تک پہنچادیتے ہیں، اس میں عزت و آبرو کے لئے بظاہر کوئی خطرہ نہیں ہوتا ہے ؛ اس لئے اس کی گنجائش ہوگی۔
حدیث میں بھی ایسے واقعات مل جاتے ہیں، جن سے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے داماد حضرت ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کی صاحبزادی حضرت زینب کو مکہ سے مدینہ بھیج دیں جو مشہور واقعہ ہے ؛ بلکہ اسی کو غزوۂ بدر میں ان کا فدیہ قرار دیا گیا تھا ؛ چنانچہ انھوں نے اپنے بھائی کنانہ بن ربیع کے ہمراہ بھیج دیا۔ (سیرۃ المصطفیٰ: ۲؍۱۲۲)
واقعہ افک مشہور ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہ مدینہ منورہ سے خاصے فاصلے پر چھوٹ گئی تھیں وہ وہاں سے ایک صحابی حضرت صفوان بن معطلؓ کے ساتھ اس مقام پر تشریف لائیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رفقاء کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ( فتح الباری: ۷؍۵۴۹)
ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے حضرت زیدؓ اور اپنے غلام ابورافعؓ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم لے کر بھیجا، وہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت اُم کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ساتھ لے کر آئیں۔ ( سیرۃ النبی: ۱؍۱۶۷)
اسی لئے امام مالکؒ کے نزدیک اگر محرم اور شوہر نہ ہوں تو دوسرے قابل اطمینان رفقاء کے ساتھ بھی اس کے لئے سفر کرنا جائز ہے اور ضروری سفر کے لئے جاسکتی ہے:
اذا لم تجد المرأۃ محرما ولا زوجاتخرج معہ أو امتنعا من الخروج معھا جاز أن تخرج للسفر الواجب مع دفقۃ ما مؤنۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۲۲؍۳۰۰)
حضرت امام شافعیؒ کے نزدیک اگر سفر میں دو یا اس سے زیادہ خواتین ہو اورعورت اپنے آپ کو مامون محسوس کرے تو وہ سفر کرسکتی ہے: تخرج المرأۃ مع محرم أو زوج أو جماعۃ من النساء (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۲۲؍۳۰۰)
ویسے بھی فقہاء نے ضرورت اور مجبوری کے ایسے سفر کی عمومی طورپر اجازت دی ہے، جیسے دارالحرب سے ہجرت کرنی ہو اور وہ ایسی جگہ ہو جہاں جان و مال یا عزت و آبرو کو خطرہ ہو، دَین ادا کرنا ضروری ہو اور امانت واپس کرنی ہو، شوہر کی نافرمانی کرکے گھر آگئی ہو اور شوہر کی طرف واپس ہونا چاہتی ہو تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ ایسی مجبوریوں کے تحت محرم دستیاب نہ ہو، تب بھی سفر کرسکتی ہے:
ویجوز سفر المرأۃ وحدھا فی الھجرۃ من دار الحرب والمخافۃ علی نفسھا ولقضاء دین وردالوریعۃ والرجوع من النشوزو ھذا مجمع علیہ۔ (سبل السلام: ۲؍۳۷۱) آج کل اسی دائرہ میں علاج کی ضرورت بھی ہے۔