حیدرآباد

یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ملک و ملت کی شناخت مٹانے کی سازش: صدر مجلس علمائے دکن

اجلاس میں شرکائے اجلاس نے اپنی آراء کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1937 میں مسلمانوں کے لئے شریعت کی روشنی میں پرسنل لا قائم ہوا جس کے تحت عائلی مسائل میں مسلمان اپنا تشخص و شناخت باقی رکھ سکتے ہیں۔

حیدرآباد: مرکزی حکومت کی جانب سے وطن عزیز ہندوستان میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے سلسلہ میں کی جانے والی کوششوں کے خلاف صدر مجلس علمائے دکن کا ایک اجلاس حسینی بلڈنگ معظم جاہی مارکٹ میں منعقد ہوا۔

متعلقہ خبریں
مسلمانوں کو مختلف مذہب اور کلچر اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے : اسدالدین اویسی
سی اے اے اور این آر سی قانون سے لاعلمی کے سبب عوام میں خوف وہراس
یکساں سیول کوڈ سے ہندوؤں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا: ممتا بنرجی
حکومت کچھ خطرناک قوانین لارہی ہے: جائیدادوں کی بذریعہ زبانی ہبہ تقسیم کردیجئے
یکساں سیول کوڈ کو مسلط نہیں کیا جاسکتا:ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈ

اجلاس کی صدارت مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری نے کی۔ اجلاس میں شرکائے اجلاس نے اپنی آراء کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1937 میں مسلمانوں کے لئے شریعت کی روشنی میں پرسنل لا قائم ہوا جس کے تحت عائلی مسائل میں مسلمان اپنا تشخص و شناخت باقی رکھ سکتے ہیں۔

تاہم یکساں سیول کوڈ اس شناخت و امتیاز کو مٹانا چاہتا ہے جو کہ دستور ہند کے آرٹیکل 25 کے خلاف ہے۔ آرٹیکل 44 یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی بات کرتا ہے جس کے تحت شادی بیاہ طلاق وراثت اور گود لینے جیسے عائلی قوانین کو بلاتفریق مذہب و ملت یکساں بنانا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو پرسنل لاء کے معاملات میں کسی اور قانون پر چلنے کے لئے کہنا یا مجبور کرنا اردتدا کی دعوت نہیں تو کم از کم مذہبی احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی دعوت ضرور ہے۔

بلاشبہ کوئی بھی مسلمان اس دعوت کو قبول نہیں کرسکتا۔ فی الحقیقت یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں پر کثیر مذاہب اور تہذیبیں موجود ہیں ممکن نہیں اور اس قانون کا اثر صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا نقصان قبائلی لوگ، سکھ اور پارسی و نیز عیسائی مذہب کے ماننے والوں کو بھی ہوگا۔

یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا اعلان دراصل ملک میں درپیش بنیادی مسائل مہنگائی، بے روزگاری اور غریبی سے نمٹنے میں موجودہ حکومت کی ناکامی کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے۔ یکساں سیول کوڈ کا مسودہ ابھی تک تیار نہیں لیکن اس پر رائے لی جارہی ہے جو کہ تعجب خیز ہے۔

حاضرین اجلاس نے اس پیغام کا بھی اظہار کیا کہ وقت اور حالات کے پیش نظر سب مسلمانوں کو متحد اور متفق ہوکر اس مسئلہ کا تدارک کرنا ہوگا اور مسلمانوں کو شرعی مسائل سے واقف ہونے اور اپنے گھروں میں قرآن و حدیث کے احکام کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

شرکا نے اپیل کی کہ اس معاملہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تائید کی جائے۔

اجلاس میں معتمد صدر مجلس علمائے دکن مولانا سید حسن ابراہیم حسینی قادری سجاد پاشاہ کے علاوہ معزز اراکین صدر مجلس علمائے دکن مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ، مولانا سید محمود پاشاہ قادری زرین کلاہ، مولانا سید شاہ محمود صفی اللہ حسینی قادری وقار پاشاہ، مولانا سید محمد اولیاء حسینی قادری مرتضی پاشاہ، مولانا مفتی سید صغیر احمد نقشبندی، مولانا سید آل مصطفیٰ قادری الموسوی علی پاشاہ، مولانا سید قطب الدین حسینی زید پاشاہ، مولانا مشہود احمد قادری، مولانا ڈاکٹر سید علی حسینی قادری علی پاشاہ نے شرکت کی۔

a3w
a3w