اتحاد و تقویٰ امت مسلمہ کی نجات کا ضامن ہے: مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت تمام دیگر ترجیحات پر فوقیت رکھتی ہے، اور علما و دانشوروں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو اتفاق و یکجہتی کی اہمیت سے روشناس کرائیں۔
حیدرآباد: مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز، نامپلی کے خطیب و امام مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے کہا ہے کہ موجودہ دور میں اتحاد عالمِ اسلام اور مسلمانوں کا سب سے اہم اور فوری توجہ طلب مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت تمام دیگر ترجیحات پر فوقیت رکھتی ہے، اور علما و دانشوروں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو اتفاق و یکجہتی کی اہمیت سے روشناس کرائیں۔
مولانا نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی، سربلندی اور کامیابی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ دشمنانِ اسلام متحد ہوچکے ہیں جبکہ مسلمان آپس میں اختلافات کا شکار ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات مسلمانوں کو ایک ملت اور ایک دین پر قائم رہنے کی دعوت دیتی ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا: "اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔”
مولانا صابر پاشاہ نے اپنی تقریر میں تاریخی حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تفرقہ پیدا کرنا یہود و نصاریٰ کی پرانی چال ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مسلمان بھی انہی کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ اگر مسلمان اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھ لیتے اور اس پر عمل کرتے تو وہ کبھی فرقوں میں تقسیم نہ ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ نے قریش و انصار جیسی دشمن قوموں کے درمیان محبت اور اخوت پیدا کی، تو آج کے مسلمانوں کے درمیان افتراق کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ "اتحاد” ایسی قوت ہے کہ اگر اسے انسانیت یا کائنات سے نکال دیا جائے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اختلاف، منافرت اور انتشار کسی بھی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے۔
مولانا نے واضح کیا کہ اسلام صرف عقائد کا مذہب نہیں بلکہ عمل کی دعوت بھی دیتا ہے۔ ایک سچا مسلمان وہی ہے جو تقویٰ، اخوت اور اتحاد جیسے اصولوں پر عمل پیرا ہو۔ تقویٰ اور اتحاد حق کے نشانات ہیں، جبکہ تفرقہ اور انتشار باطل کے آثار ہیں۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کی کامیابی اور نجات صرف اسی وقت ممکن ہے جب وہ تقویٰ اور برادری کے ان دو سنہری اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور اختلافات، الزام تراشی، اور گروہ بندی جیسے رویوں سے مکمل اجتناب کریں۔