دہلی

یوپی مدرسہ ایکٹ‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ‘ جسٹس جے بی پاڑدی والا اور جسٹس منوج مشراپر مشتمل بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھنے سے قبل 8 درخواست گزاروں کے کئی وکلاء کے علاوہ حکومت ِ اترپردیش کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل کے ایم نٹراج کی بحث کی تقریباً 2 دن سماعت کی۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل کے دن ان درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا جن میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کو چیلنج کیا گیا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے مدرسوں کے تعلق سے اترپردیش کے 2004 کے قانون کو اس بنیاد پر غیردستوری قراردیا تھا کہ اس سے سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں
سنبھل جامع مسجد کی آہک پاشی میں کیا برائی ہے؟: الٰہ آباد ہائی کورٹ
ملزم کی موت، ورثاء سےجرمانہ وصول کیا جاسکتا ہے: ہائیکورٹ
اورنگ آباد اور عثمان آباد کے ناموں کی تبدیلی کے خلاف عرضیاں ہائی کورٹ میں خارج
مذہبی مقامات قانون، سپریم کورٹ میں پیر کے دن سماعت
شیوسینا میں پھوٹ‘ اسپیکر کا 10 جنوری کو فیصلہ

 چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ‘ جسٹس جے بی پاڑدی والا اور جسٹس منوج مشراپر مشتمل بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھنے سے قبل 8 درخواست گزاروں کے کئی وکلاء کے علاوہ حکومت ِ اترپردیش کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل کے ایم نٹراج کی بحث کی تقریباً 2 دن سماعت کی۔

 پیر کے دن بنچ نے سینئر وکلاء ابھیشیک منو سنگھوی‘ سلمان خورشید اور مینکا گرو سوامی کے موقف کی سماعت کی۔ منگل کے دن اس نے سینئر وکلاء بشمول مکل روہتگی‘ پی چدمبرم اور گرو کرشنا کمار کی دلیلیں سنیں۔ 22 مارچ کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی مدرسہ ایکٹ کو غیردستوری قراردیا تھا اور ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں شریک کرادے۔

 اترپردیش بورڈ آف ایجوکیشن ایکٹ 2004 رد کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر روک لگاتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا کی بنچ نے 5  اپریل کو تقریباً 17 لاکھ مدرسہ طلبا کو راحت دی تھی۔ حکومت ِ اترپردیش نے آج سپریم کورٹ کو بتایا کہ وہ مدرسوں کے تعلق سے اپنے قانون پر قائم ہے اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کو سارے قانون کو غیردستوری نہیں قراردینا چاہئے تھا۔

 ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ میں قانون کی تائید کی تھی لیکن اس نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر نہیں کی تھی۔ سپریم کورٹ بنچ کے پوچھنے پر ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل کے ایم نٹراج نے کہا کہ ہم قانون کا دفاع کرتے ہیں۔ ریاست نے خصوصی درخواست (ایس ایل پی) داخل نہیں کی۔ سارے قانون کو رد کرنا ٹھیک نہیں۔

قبل ازیں سینئر وکیل مکل روہتگی نے ایک درخواست گزار کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرے موکل کو مذہبی تعلیم نہ ملے تو اس سے اس کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سینکڑوں بچے مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں اور آپ کسی کو مجبور نہیں کرسکتے۔ مجبور کرنا سیکولرازم نہیں ہے۔