مضامین

کوئیمبتور میں حضرت زندہ شاہ مدار کا عرس، خطاب میں اہم نکات

حضور زندہ شاہ مدار کے بارے میں بات کرتے ہوئے حضرت مولانا سید شاہ منور علی چشتی قادری سہروردی نے کہا کہ حضرت زندہ شاہ مدار کا فیضان نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں پھیل چکا ہے، اور ان کا اثر آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔

کوئیمبتور: سرزمین بھارت ہمیشہ سے اولیاء اللہ اور علمائے کرام کا مسکن رہی ہے، جہاں لاکھوں صوفیاء، انبیاء کرام اور صحابہ کرام نے انسانیت کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔

اس سلسلے میں خانقاہ کلیمیہ مداریہ کوئیمبتور میں حضرت علامہ سید شاہ علی معصوم بابا اور دیگر اہم شخصیات کی موجودگی میں عرسِ مبارک کی محفل منعقد کی گئی۔

جلسے کی صدارت تاجدار ملنگاں حضرت علامہ شاہ صوفی سید بابا معصوم علی شاہ ملنگ طیفوری نے کی۔

اس موقع پر انہوں نے 608 سالہ عرسِ حضرت سیدنا بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ کے موقع پر خطاب کیا۔

حضرت زندہ شاہ مدار کا شمار بھارت کے ابتدائی صوفی بزرگوں میں ہوتا ہے، جن کی تعلیمات اور فیضان آج بھی جاری ہیں۔

جلسے کا آغاز مولانا قاری محمد عبداللہ مداری کی تلاوتِ قرآن اور نعتِ شریف سے ہوا۔ جناب محمد کلیم نے تمام مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔

خلیفہ مجاز تاجدار ملنگاں حضرت علامہ حافظ وقاری محمد شاہد میاں معصومی مداری نے کہا کہ مسلمانوں کو خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حقیقی محبت اور اہلِ بیت و صحابہ کرام سے عشق و محبت رکھنی چاہیے۔

حضور زندہ شاہ مدار کے بارے میں بات کرتے ہوئے حضرت مولانا سید شاہ منور علی چشتی قادری سہروردی نے کہا کہ حضرت زندہ شاہ مدار کا فیضان نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں پھیل چکا ہے، اور ان کا اثر آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔

جنوبی بھارت کے مشہور عالم دین مولانا اسدالعلماء تنویر صحافت نے کہا کہ حضرت سیدنا بدیع الدین زندہ شاہ مدار چودہ سال کی عمر میں تمام علوم عقلیہ و نقلیہ اور آسمانی کتابوں کے حافظ ہو چکے تھے۔

ان کی علمی و روحانی شخصیت نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو بدلا۔

برادر سجادہ نشین حضرت گوگی شریف مولانا مفتی سید شاہ چندا حسینی زبیر بابا نے کہا کہ حضرت زندہ شاہ مدار کا نام ہند کے اولیاء میں سب سے نمایاں ہے۔

اس موقع پر دیگر اہم شخصیات جیسے کہ جناب محمد سکندر چشتی مداری، حضرت نظیر احمد پلےڈم، جناب اشرف علی معصومی مداری اور دیگر علماء بھی موجود تھے۔

اختتام پر صلوۃ و سلام اور خصوصی دعاؤں کے ساتھ اقطاعِ عالم کے مسلمانوں کے لئے دعا کی گئی۔