ڈھاکہ: بنگلہ دیش نے اعلان کیا تھا کہ وہ چہارشنبہ (17 جولائی) سے تمام سرکاری اور خانگی یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دے گا جبکہ سرکاری ملازمتوں میں متنازعہ کوٹہ سسٹم کے خلاف ملک گیر مظاہروں میں تاحال کم از کم 6 افراد ہلاک اور 400 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔
یہ مظاہرے 5 جون کو بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد شروع ہوئے جس میں آزادی پسندوں اور ان کی اولادوں کے لئے سرکاری ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹہ بحال کیا گیا تھا۔ اس کوٹہ کو 2018 میں طلبہ اور اساتذہ کی قیادت میں ایک زبردست احتجاج کے بعد منسوخ کر دیا گیا تھا۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اتوار کے روز مظاہرین کو ’رضاکار‘ کہہ کر آگ میں مزید تیل ڈالنے کا کام کیا کیونکہ بنگلہ دیش کے تاریخی پس منظر کی مناسبت سے غداروں کو رضاکار کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ یہ الفاظ توہین کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔
آپ کو کیا جاننے کی ضرورت ہے؟
ایک متنازعہ کوٹہ سسٹم
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کو آمدنی کے ایک مستحکم اور منافع بخش ذریعہ کے طور پر بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اے پی کی رپورٹ کے مطابق تقریباً چار لاکھ گریجویٹس ہر سال تقریباً تین ہزار سرکاری ملازمتوں کے لئے امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔
سال2018 تک، 56 فیصد سرکاری ملازمتیں مختلف زمروں کے لئے مخصوص تھیں۔ان میں 30 فیصد سابق فوجیوں کے خاندان کے افراد کے لئے مخصوص تھیں جنہوں نے 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے جنگ لڑی تھی۔
خواتین اور پسماندہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد کو دس دس فیصد ریزرویشن دیا جاتا ہے، جبکہ قبائلی برادریوں کو 5 فیصد اور 1 فیصد معذور افراد کے لئے کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ اس کے بعد کھلے زمرہ (جنرل) میں صرف 44 فیصد کوٹہ باقی رہ جاتا ہے۔
آزادی پسندوں کا کوٹہ خاص طور پر متنازعہ رہا ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آزادی کی جدوجہد کی قیادت کرنے والی شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ کے وفاداروں کو ہی فائدہ پہنچائے گا۔
اس کے علاوہ سرکاری نوکری کے لئے امتحانات میں شرکت کی کئی شرطیں ہیں جیسے ہر زمرے کے لئے عمر کی حد وغیرہ۔ ایسے حالات میں میرٹ لسٹ کے اہل امیدوار، کوٹہ کی نشستیں خالی ہونے کے باوجود نوکری پانے سے محروم رہتے ہیں۔
اپریل 2018 میں، طلباء اور اساتذہ نے ان شرائط کو ہٹانے اور مجموعی ریزرویشن کو 10 فیصد تک کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے چار ماہ طویل احتجاج کیا تھا۔
تشدد شروع ہوا، مظاہرین بنگلہ دیش چھاترا لیگ (بی سی ایل، حکمران عوامی لیگ کے طلبہ ونگ) اور پولیس کے ساتھ مارپیٹ پر آ گئے۔ بین الاقوامی احتجاج کے بعد حسینہ نے تمام کوٹے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اب عدالتی فیصلہ اور بڑے پیمانے پر احتجاج
5 جون 2024 کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کے ہائی کورٹ ڈویژن نے تمام تحفظات، خاص طور پر متنازعہ 30 فیصد آزادی پسندوں کے کوٹے کو منسوخ کرنے کے 2018 کے حکم کو برخواست کردیا۔
جیسے ہی 17 جون کو عید الاضحی کی تقریباب ختم ہوئیں، ڈھاکہ میں اس فیصلہ کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ ویسے عدالت کے فیصلہ کے خلاف آوازیں اٹھنی شروع ہوگئی تھیں تاہم عید کے بعد احتجاج منظم پیمانے پر شروع ہوا اور اب صورتحال انتہائی دھماکو ہوگئی ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں میں تاحال 6 افراد ہلاک اور 400 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
ملک گیر بنگلہ بند 7 جولائی کو نافذ ہوا، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے اپیل ڈویژن نے ایک ماہ کے لئے حکم پر نئے احکام پر عمل درآمد روک دیا تھا۔
مظاہرین نے اس بار تمام زمروں سے امتیازی کوٹے کو ہٹانے، پسماندہ آبادی کے لئے مجموعی طور پر ریزرویشن کو صرف 5 فیصد تک محدود کرنے کا مطالبہ کیا ہے جیسا کہ آئین میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے، اور اس تبدیلی کو محفوظ بنانے کے لئے پارلیمنٹ میں ایک بل پاس کرنے کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے۔
گزشتہ پیر کے روز ملک بھر کی مختلف یونیورسٹیوں میں کوٹہ مخالف مظاہرین اور بی سی ایل اور پولیس کے درمیان جھڑپوں نے پرتشدد رخ اختیار کر لیا۔
ہلاک ہونے والے 6 افراد میں تین طلبا بتائے جاتے ہیں جس کے بعد بنگلہ دیش کے تمام تعلیمی اداروں کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کردیا گیا ہے۔
آج جمعرات کو ہونے والا ہائر سیکنڈری سرٹیفکیٹ امتحان بھی ملتوی کر دیا گیا۔ ملک بھر میں مختلف مقامات پر بارڈر گارڈ کو تعینات کیا گیا ہے۔
اسی دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے بنگلہ دیش کی حکومت پر زور دیا کہ وہ ایک پرامن حل تلاش کرے اور مظاہرین کے پرامن مظاہرے کے حق کو تسلیم کرے۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ کا احتجاجیوں کو’’رضاکار‘‘ کہنا
وزیراعظم شیخ حسینہ نے حالات کو سنبھالنے کے بجائے طنز جملوں اور الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ انہوں نے احتجاجیوں کو ’’رضاکار‘‘ کہہ کر مخاطب کیا کیونکہ وہاں بنگلہ دیش میں رضاکار کا لفظ کسی کی توہین کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آزادی پسندوں کے بچے اور پوتے باصلاحیت نہیں ہیں؟ کیا صرف رضاکاروں کے بچے اور پوتے ہی ہنرمند ہیں؟
گزشتہ برسوں کے دوران حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ نے اکثر اپنی حکومت کے ناقدین کو ‘رضاکار’ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کے موقع پر جاری جدوجہد کے دوران پاکستان کے حامیوں کو رضاکار کہا جاتا تھا۔ یہ رضاکار بنگلہ دیشی مرد خواتین پر مظالم، عصمت دری اور قتل عام کے لئے جانے جاتے تھے۔