دہلی

وقف ترمیمی بل، چندرابابونائیڈو اور نتیش کمارنے آخر کار مسلمانوں کی پِیٹ میں چھراگھونپ دیا؟

کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اس بل کی شدید مخالفت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بل پر غور کرنے کے لیے بنائی گئی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے اپوزیشن کے اعتراضات کو نظرانداز کیا ہے۔

نئی دہلی: لوک سبھا میں آج اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو کی جانب سے پیش کیے گئے وقف ترمیمی بل پر زبردست بحث جا ری ہے۔ یہ بل گزشتہ چند ہفتوں سے سیاسی حلقوں میں شدید بحث و مباحثے کا مرکز بنا ہوا ہے۔

متعلقہ خبریں
مغربی مہاراشٹرا، مراٹھواڑہ اور کونکن کی 11 سیٹوں پر انتخابی مہم آج شام ختم
وقف ترمیمی بل کے خلاف وجئے واڑہ میں زبردست دھرنا
وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں آندھرا وقف بورڈ اور کل ہند انجمن صوفی سجادگان کا بروقت اقدام قابل تقلید: خیر الدین صوفی
وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا جمعرات کو پہلا اجلاس
وقف ترمیمی بل، مرکزی حکومت کے ارادے نیک نہیں ہیں: جعفر پاشاہ

یہ قانون 1995 کے وقف ایکٹ میں ترامیم لانے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق، اس کا مقصد وقف املاک کے بہتر انتظام کو یقینی بنانا ہے۔

کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اس بل کی شدید مخالفت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بل پر غور کرنے کے لیے بنائی گئی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے اپوزیشن کے اعتراضات کو نظرانداز کیا ہے۔

بی جے پی اور کانگریس سمیت تمام بڑی جماعتوں نے اپنے ارکان پارلیمنٹ کو وہپ جاری کیا ہے تاکہ وہ بل پر بحث میں حصہ لیں اور ووٹنگ کے وقت موجود رہیں۔

لوک سبھا میں اس بل پر بحث کے لیے آٹھ گھنٹے مختص کیے گئے ہیں، لیکن اس وقت میں توسیع بھی ممکن ہے۔ اگر یہ بل لوک سبھا میں منظور ہو جاتا ہے، تو اسے راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔

اعداد و شمار بی جے پی کے حق میں نظر آ رہے ہیں۔ بی جے پی کے 240 ایم پیز ہیں، جبکہ اس کے اتحادیوں میں ٹی ڈی پی (16 ایم پیز) اور جے ڈی یو (12 ایم پیز) شامل ہیں۔ دیگر اتحادیوں کے ساتھ، این ڈی اے کے ووٹ 295 ہونے کا امکان ہے، جو 272 کی اکثریتی حد سے کہیں زیادہ ہیں۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس تقریباً 234 ووٹ ہیں۔

ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو، جو اقلیتی ووٹ بینک میں خاصا اثر رکھتے ہیں، اپوزیشن کے نشانے پر ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں نے ان دونوں جماعتوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ بل کی حمایت کرتے ہیں تو انہیں سیاسی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

ٹی ڈی پی نے واضح کیا ہے کہ وہ اس بل کی حمایت کرے گی اور پارٹی لیڈر چندرابابو نائیڈو نے مسلمانوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔ جے ڈی یو نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ قانون ماضی میں لاگو نہ کیا جائے۔

وقف ترمیمی بل گزشتہ سال اگست میں لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا اور بعد ازاں اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا گیا، جس نے اپنی رپورٹ پارلیمنٹ کو سونپ دی ہے۔

اس بل میں چند متنازعہ ترامیم شامل ہیں، جن میں وقف بورڈ اور سینٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم ممبران کی شمولیت کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، جو سرکاری زمین وقف کے طور پر درج ہوگی، وہ وقف تصور نہیں کی جائے گی، بلکہ اس کی ملکیت کا فیصلہ کلیکٹر کرے گا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے تمام سیکولر جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بل کی مخالفت کریں۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ بل آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔

بی جے پی کے پاس عددی اکثریت نظر آ رہی ہے، لیکن جے ڈی یو اور دیگر اتحادیوں کا حتمی فیصلہ اہم ہوگا۔ اپوزیشن کی شدید مخالفت اور اقلیتی تنظیموں کی تنقید کے باوجود، اگر اتحادی جماعتیں بی جے پی کا ساتھ دیتی ہیں، تو یہ بل منظور ہونے کے قوی امکانات ہیں۔