وقف ترمیمی بل۔سنگھ پریوار کا خفیہ ایجنڈا !
قف ترمیمی بل کے تعلق سے مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ وقف ترمیمی بل دراصل مرکزی حکومت کی بد نیتی پر مبنی ہے ۔وقف اراضیات کی تباہی کے لئے وقف ترمیمی بل کو پیش کیا گیا ہے۔
ایم۔اے مجیب
ایڈوکیٹ‘ تلنگانہ ہائیکورٹ
وقف ترمیمی بل کے تعلق سے مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ وقف ترمیمی بل دراصل مرکزی حکومت کی بد نیتی پر مبنی ہے ۔وقف اراضیات کی تباہی کے لئے وقف ترمیمی بل کو پیش کیا گیا ہے۔ وقف ترمیمی بل میں مسلم پرسنل لاء کے ساتھ ساتھ دستور اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے وقف ترمیمی بل کے خلاف شدید صدائے احتجاج بلند کیا جا رہا ہے ۔لوک سبھا میں وقت ترمیمی بل کی اپوزیشن جماعتوں نے شدید مخالفت کی جس کے نتیجے میں وقف ترمیمی بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کیا گیا اور اب مشترکہ پارلیمانی کمیٹی عوام سے آرا طلب کر رہی ہے اس سلسلے میں تلنگانہ وقف بورڈ نے آج ہی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے نمائندگی کی اور وقف ترمیمی بل کی شدید مخالفت کی۔ وقف ترمیمی بل میں 40 نکات کو شامل کیا گیا ہے جو کہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔
اس بل کو یونین منسٹر آف مائناریٹی افیرس نے لوک سبھا میں پیش کیا۔جو قانون ہندوستان میں ہے اس قانون کو وقتاً فوقتاً تبدیل کیا گیا ہے اور اس بات کو جاننا چاہئے کہ ڈیفنس اور ریلویز کے بعد اگر کسی ادارہ کے پاس سب سے زیادہ جائیدادیں موجود ہیں تو وہ وقف بورڈ ہے ۔ہندوستان کے تقریباً23وقف بو رڈس لاکھوں کروڑو ں کی وقف جائیدادوں رکھتی ہیں اور ان جائیدادوں کی جو قیمت ہے وہ اربو ں روپیوں میں ہے۔
ایک اندازہ کے مطابق پورے ہندوستان میں تقریباً 9 لاکھ وقف جائیدادیں موجود ہیں جو پورے ہندوستان میں 8 لاکھ ایکڑس پر مشتمل ہے۔ایک اندازہ کے مطابق ان کی قیمت 2لاکھ کروڑ تک ہے اور یہ تمام وقف کی جائیدادیں متعلقہ ریاست کے وقف بورڈ کے تحت آتی ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ وقف کا قانون آزاد ہندوستان میں ہی بنا ہے ۔ آزادی سے پہلے انگریزوں نے بھی قانون کو نافذ کیا تھا لیکن آزادی کے بعد اوقاف کے معاملات کی دیکھ بھال کیلئے جو قانون پہلی بار بنایا گیا ہے وہ ہے وقف ایکٹ 1954۔اس کے بعداگر وسیع وقف قانون بنانے کی کوشش کی گئی ہے تو وہ ہے وقف ایکٹ 1995۔
1995 کا موجودہ وقف ایکٹ ہے اور موجودہ جو وقف ایکٹ ہے اس میں 113 سیکشنس ہیں اور اس کو 9 چیاپٹر میں بانٹا گیا ہے۔1995 کے وقف قانون میں وقف جائیدادوں کو بچانے کے نکات موجود ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ وقف ایکٹ 1995 میں خامیاں موجود نہیں ہیں اور اگر وقف ایکٹ 1995 کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وقف معاملات میں وقف بورڈ کے ملازمین ہو یا عدالتوں میں وقف کو دیکھنے والے ہو تو صاف نظر آئے گا کہ 1995 ایکٹ کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر وقف ایکٹ 1995 مناسب طورپر طاقتو ر ہوتا اور وقف ایکٹ کے تحت جو وقف بورڈ کو اختیارات دیئے جاتے تو آج وقف کی جائیدادیں برباد نہیں ہوتیں۔تقریباً وقف اراضیات آج تباہ و برباد ہوچکی ہیں یا پھر لینڈ گرابرس کی نذر ہوگئی ہیں۔
سابقہ میں ہمارے آبا واجداد نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے جو اراضیات وقف کی تھیں۔ اس کا صحیح طورپر استعمال نہیں کیا گیا۔لیکن آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ”گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ کے مانند آج وقف بورڈ اتنا معذور ہوگیا ہے کہ وہ وقف اراضیات پر قابض افراد کو بے دخل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے اس کی اہم وجہ وقف بورڈ کے پاس اختیارات نہیں ہیں اور موجودہ وقف قانون میں جو وقف بورڈ کو اختیارات حاصل ہے وہ کافی نہیں ہیں۔موجودہ وقف ایکٹ کے تحت چیف ایگزیکٹیو آفیسر وقف بورڈ کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے ذمہ دار ہیں۔کمشنر انڈومنٹ اتنا طاقتور ہے کہ وہ کسی بھی غیر قانونی طورپر قابضین کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فوری طورپر ہٹا سکتا ہے۔
کمشنر انڈومنٹ کا جو فیصلہ ہوتا ہے اس کی عمل آوری کیلئے پولیس کی بھی مدد لی جاتی ہے۔ لیکن وقف بورڈ کے ایگزیکٹیو آفیسر پولیس کو مکتوب لکھتے ہیں اور ریونیو عہدیدار کو توجہ دلائی جاتی ہے لیکن کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔یہ بہت بڑی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے وقف کی جائیدادیں تباہ و برباد ہورہی ہیں۔اس موقع پر یہ بات بتانا ضروری ہے کہ ہر 10سال میں وقف اراضیات کا سروے کروانا ضروری ہے اور اس سروے میں جو سروے کمشنر ہوتا ہے وہ موجودہ وقف کے جتنے بھی وقف کی اراضیات ہیں اس کی نشاندہی کرنا اور حکومت کو رپورٹ دینا اور نئی جائیدادوں کاسروے کے بعد اندراج کرنا سروے کمشنر کی ذمہ داری ہے۔سروے کی رپورٹ حکومت کو دینے کے بعد بھی حکومت کافی دیر کرتی ہے جس کی وجہ سے وقف کی اراضیات پر غیر مجاز قبضہ ہورہا ہے۔حکومت کسی بھی قسم کا بجٹ وقف بورڈ کو دینے کیلئے کوئی مستقل قانون نہیں بنا رہا ہے۔وقف بورڈ کی زیادہ تر آمدنی درگاہوں‘ مختلف مذہبی مقامات کے زائرین کے چندہ اور ہنڈی میں آنے والے پیسے سے ہوتی ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ قانون میں ممبر آف لیجسلیٹو اسمبلی کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ ممبر آف لیجسلیٹیو کونسل کا ذکر نہیں کیا گیا جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ اگر رکن اسمبلی کی میعاد ختم ہوجاتی ہے تو وہ فوری طورپر اسمبلی کا رکن نہیں رہتا مگر جبکہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد وقف بورڈ کے چیرمین پر ایک رکن قانون ساز کونسل کو نامزد کیا گیا جن کی میعاد ختم ہونے کے باوجود بھی وہ چیرمین کے عہدہ پر فائز رہے ہیں۔
وقف بورڈ کا انتخاب ووٹنگ کے ذریعہ ہوتا ہے اور اس میں دو مسلم ارکان پارلیمنٹ‘ مسلم ارکان اسمبلی‘ مسلم ممبر کونسل یا کسی سینئر ایڈوکیٹ کو نامزد کیا جاتا ہے۔وقف بورڈ میں ممبر کے انتخاب میں شیعہ فرقہ کی بھی شمولیت رہتی ہے۔
الغرض مرکزی حکومت کی جانب سے وقف ترمیمی بل کے متعلق جو خدشات ہیں بالخصوص اگر ملک میں وقف ترمیمی بل پاس ہو گیا تو جو نقصانات مسلمانوں کی اوقافی جائیداد کو ہوں گے اور بلکہ اوقافی جائدادوں پر سے مسلمانوں کا موقف اکثر طور پر ختم ہو جائے گا مجوزہ بل میں جن 40 ترمیمات کو شامل کیا گیا ہے اس کا مدلل جواب دینے کی ضرورت ہے اور ہر ایک کو اس کی نفی کرنی ہوگی ۔
وقف (ترمیمی) بل، 2024 پر مشترکہ کمیٹی نے ‘وقف (ترمیمی) بل، 2024’ پر تجاویز کو طلب کیا۔
(1) و قف قف (ترمیمی) بل، 2024 جیسا کہ لوک سبھا میں پیش کیا گیا، جانچ اور رپورٹ کے لیے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ مجوزہ بل کے وسیع مضمرات پر غور کرتے ہوئے، شری جگدمبیکا پال کی سربراہی میں کمیٹی نے عوام اور این جی اوز/ ماہرین/ اسٹیک ہولڈرز اور اداروں سے خاص طور پر آراء/مشورے پر مشتمل یادداشت کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
(2) جو لوگ کمیٹی کو تحریری میمورنڈرم/تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں وہ اس کی دو کاپیاں انگریزی یا ہندی میں جوائنٹ سیکرٹری (جے ایم) لوک سبھا سیکرٹریٹ، کمرہ نمبر 440، پارلیمنٹ ہاؤس اینیکس، نئی دہلی-11000 کو بھیج سکتے ہیں۔
نمبر 23034440/23035284، فیکس نمبر: 23017709 ۔ اسے [email protected] پر میل کریں۔ "وقف (ترمیمی) بل، 2024” کا متن لوک سبھا کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے ۔
(3) کمیٹی کو پیش کردہ میمورنڈم/تجاویز کمیٹی کے ریکارڈ کا حصہ ہوں گی اور انہیں ’خفیہ‘ سمجھا جائے گا ۔
(4) جو لوگ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے خواہشمند ہیں، میمورنڈم جمع کرانے کے علاوہ ن سے خصوصی طور پر اس کی نشاندہی کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں کمیٹی کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
الغرض وقف ترمیمی بل میں جو ترمیمات پیش کی گئی ہیں۔ اس کا مقصد وقف اراضیات کا تحفظ نہیں بلکہ وقف کے منشا ومقصد کو ہی ختم کرنا ہے اور اوقافی جائیدادوں کو تباہ کرنا ہے ۔دراصل اوقافی جائیدادیں امانت ہوتی ہیں جس میں خیانت نہیں کی جا سکتی۔ تاہم آج مرکزی حکومت ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ وقت بورڈز کو ختم کرنے کی سازش کر رہی ہے جس کو ناکام بنانے کے لیے تمام مکتب فکر کے افراد کو آگے آنا چاہیے اور وقف ترمیمی بل کو رد کرنا چاہیے۔ وقف ترمیمی بل کو قانون کی شکل نہ دیے جانے کے لئے اپنے طور پر مساعی کرنا چاہیے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰