قانونی مشاورتی کالم
ٹرینڈنگ

PANکارڈ کی طرح ہر رجسٹر شدہ جائیداد کو آدھار کارڈ سے (لنک) مربوط کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے

جاریہ الیکشن کے نتائج چاہے کچھ بھی ہوں‘ کوئی بھی پارٹی برسرِاقتدار آسکتی ہے لیکن گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لئے آمدنی کے نئے وسائل تلاش کئے جائیںگے جن میں وراثت ٹیکس اور پراپرٹی کو آدھار سے مربوط کرنے کے قوانین ہوسکتے ہیں۔

کیا حکومت کے ارادے آدھار سے غیر مربوط جائیدادوں کو بے نامی قراردے کر ضبط کرلینا تو نہیں ہے

٭ پراپرٹی کے مالکین کیلئے ایک مشکل لیکن خطرناک صورت پیدا ہوجائے گی۔

٭ جہاں تک ہوسکے خود سے ایسے اقدامات نہ کریں۔

٭ حکومت کی جانب سے کسی بھی تحریک پر قانونی مشورہ حاصل کریں۔

٭ حکومت اپنی آمدنی میں بے تحاشہ اضافہ کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گی۔

٭ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بے نامی قانون منظور ہوچکا ہے۔

جاریہ الیکشن کے نتائج چاہے کچھ بھی ہوں‘ کوئی بھی پارٹی برسرِاقتدار آسکتی ہے لیکن گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لئے آمدنی کے نئے وسائل تلاش کئے جائیںگے جن میں وراثت ٹیکس اور پراپرٹی کو آدھار سے مربوط کرنے کے قوانین ہوسکتے ہیں۔

اس ضمن میں ہائیکورٹ میں رٹ درخواستیں پیش کی گئی ہیں جن میں درخواست کی گئی ہے کہ مرکزی حکومت کو ہدایت جاری کی جائے کہ ملک کی تمام رجسٹر شدہ جائیدادوں کو (PAN) کی طرز پر آدھار کارڈ سے مربوط کیا جائے تاکہ بے نامی جائیدادوں کو طشت از بام کیا جائے۔

ایک اندازے کے مطابق ملک میں کم از کم200لاکھ کروڑ روپیوں کی جائیدادیں بے نامی قراردی جائیں گی اور سارے ملک میں جائیدادوں‘ زمینات کی ذخیرہ اندوزی کے رجحانات میں کمی آئے۔

مختلف چیانلس پر ایسے مباحث ہورہے ہیں اور ایسے مباحث بے بنیاد اور بے مطلب نہیں ہوتے۔ حکومت اگر چاہے تو ایک گورنمنٹ آرڈر کے ذریعہ ایسے احکامات جاری کرسکتی ہے یا آرڈیننس لاسکتی ہے۔

ایسی صورت مالکینِ جائیداد کے لئے تشویش کا باعث بن جائے گی۔ ہر کسی صاحبِ جائیداد کو حیران و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ قانونی صورت یا حکومتی احکامات ان افراد کیلئے جان لیوا ثابت ہوں گے جنہوں نے اراضیات ‘ پلاٹس اور جائیدادوں کا ذخیرہ کرلیا ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی شخص اپنی ساری زندگی کی کمائی سے ایک چھوٹا سا مکان یا100 مربع گز اراضی کا تکڑا بھی نہیں خریدسکتا۔

مکانوں کے کرائے جان لیوا ثابت ہورہے ہیں ۔ کرایوں میں ہر سال دس فیصد قاتلانہ اضافہ بھی کسی آفت سے کم نہیں۔ حکومت نے اپنا ذہن بنالیا ہے کہ اس ضمن میں کوئی مثبت اقدام کرے گی جو عوامی مفاد میں ہوں۔

حکومت چاہے کسی کی بھی آئے۔ قانون سازی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آثار و قرائن ایسے ہیں کہ انڈیا اتحاد 4؍جون کی تاریخ پر برسراقتدار آجائے گا۔ اگر ایسی بات ہو تو الیکشن میں کئے گئے وعدوں کی پابجائی کرنا ہوگا جو درج ذیل ہیں۔

-1 ہر غریب خاتون کو سالانہ ایک لاکھ روپیہ نقد ادا کیا جائے گا۔

-2 ہر نوجوان گریجویٹ یا ڈپلوما ہولڈر کو ماہانہ چار ہزار روپیہ دیئے جائیں گے۔

-3 مہاتماگاندھی دیہی روزگار پروگرام میں یومیہ مزدوری چار سو روپیہ ہوگی۔

-4 ہر غریب خاندان کو ماہانہ دس کلو راشن دیا جائے گا۔

-5 شہری علاقوں میں دیہی روزگار کی طرز پر روزگار فراہم کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں کئی ترغیبات ہیں جن کی تکمیل کیلئے بے پناہ پیسوں کی ضرورت ہوگی تو یہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔
گزشتہ کئی دہوں سے ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد نے سب سے زیادہ منفعت بخش تجارت یعنی رئیل اسٹیٹ میں اپنا سرمایہ لگایا ہے اور ان کے سرمایہ میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔

ان بے رحم افراد نے زمینات کی اشیائے خوردنی کی طرح ذخیرہ اندوزی کی اور عام آدمی کو زمین سے محروم کردیا۔ صرف کروڑ پتی افراد ہی اب مکان خریدسکتے ہیں جبکہ درمیانی طبقہ کا آدمی مکان سے محروم رہ گیاہے۔

اب حکومت نے ایسے افراد کی گردن پکڑنے کی تیاری شروع کی ہے جس پر عمل درآمد اب اس طرح ہوگا۔

-1 بے نامی قانون کا بے رحمانہ استعمال کیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس نے اپنے جائز ذرائع آمدنی سے زیادہ دولت جمع کی اور اس سے اپنی بیوی‘ بچوں‘ ملازمین رشتہ داروں کے نام پر جائیدادیں خریدیں‘ ایسی جائیدادوں کو بے نامی قراردے کر ضبط کرلیا جائے گا۔

-2 وراثت ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔ ہر صاحبِ جائیداد کی موت کی صورت میں اس کے ورثاء پر بھاری ٹیکس عائد کیا جائے گا جس کی حد 60فیصد بھی ہوسکتی ہے۔

-3 ایسے ملازمینِ سرکار (دورانِ ملاززت یا موظف) جنہوں نے حکومت کی اجازت کے بغیر اپنے نام پر یا اپنے بیٹوں کے نام پر جائیدادیں خریدیں‘ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ان کی جائیدادوں کو بے نامی قراردے کر ضبط کرلیا جائے گا۔

ان مجوزہ اقدامات جن پر مختلف چیانلس پر تذکرہ ہورہا ہے‘ کا مطلب صاف ہے کہ حکومت کی نظر اب جائیدادوں پر ہے اور جائیدادوں ہی میں ساری دولت پوشیدہ ہے۔ اس دولت سے انتخابی وعدوں کی تکمیل ہوسکتی ہے۔

شائد یہی وجہ ہے کہ آسان ترین طریقہ استعمال کرکے بے نامی جائیدادوں کو طشت از بام لانا ہے اور وہ طریقہ صرف اور صرف تمام رجسٹر شدہ جائیدادوں کو آدھار کارڈ سے مربوط کرنا ہے۔

لہٰذا ایسا کوئی اقدام اپنی جانب سے نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی نوٹس آئے تو قانونی مشورہ کے بعد ہی کوئی اقدام کیا جاسکتا ہے۔

ہماری ناچیز رائے میں مسلمانوں کے لئے بہتر ہوگا کہ قبل اس کے کہ کوئی مصیبت کھڑی ہو‘ اپنی جائیدادیں ورثاء میں جلد از جلد تقسیم کردیں۔