یمنی شہری کی اپنے بچے کے سامنے بھوک سے مرنے کی دردناک ویڈیووائرل
اس کے ساتھ ہی اس کا بچہ "عمار" موجود تھا جو اپنے ہاتھ میں کیک کا ٹکڑا اور جوس کا ایک ڈبہ کافی دیر سے پکڑے ہوئے تھا۔ یہ کیک اور جوس اسے ایک راہگیر نے دیا تھا۔ راہگیر نے سمجھا تھا کہ اس کا والد سو رہا ہے۔شہری البکار کے ساتھ ہونے والے اس انجام پر سماجی حلقوں اور سوشل میڈیا سائٹس پر غم کی کیفیت چھا گئی۔

صنعاء: ایک یمنی شہری کی اپنے بچے کے سامنے بھوک سے مرنے کی ایک المناک ویڈیو نے لوگوں کو رنجیدہ کردیا۔ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ بھوک سے نڈھال یمنی شہری نے اپنی آخری سانس شہر "اب” کے ایک فٹ پاتھ پر لی۔
یہ دردناک واقعہ ایک ایسے ایسے شہر میں پیش آیا ہے جہاں سے حوثی گروپ سالانہ اربوں ریال کماتا ہے۔یمنی کارکنوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یاسر احمد البکار نام کے شہری کی تصاویر پھیلا دی گئیں۔
البکار کی روح اس وقت پرواز کر گئی جب وہ شہر ”اب“ کے شمال مغرب میں واقع المعا ین کے علاقے میں فٹ پاتھ پر تھا۔ اس کے سامنے روٹی کا ایک ٹکڑا تھا اور اس کے ساتھ اس کا کمسن بچہ عمار بھی موجود تھا۔ بچے کو معلوم نہیں تھا کہ اس کا باپ ایک دردناک منظر میں موت کے منہ میں چلا گیا ہے۔ یہ منظر لوگوں کو درپیش بھوک اور غربت اور درد کے کیفیت کو واضح کر رہا ہے۔
یہ سب کچھ اس شہر میں ہو رہا ہے جہاں سے حوثی ملیشیا اسی شہر کے مکینوں کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں اور ان کے زندہ رہنے اور جینے کے حق کو غصب کر رہے ہیں۔یمنی میڈیا ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ البکار چار بچوں کا باپ تھا اور وہ ہزاروں شہریوں کی طرح مشکل مالی حالات میں زندگی گزار رہا تھا۔
یہ سب شہری سخت دنوں میں بھاری مصائب کا شکار ہیں۔اچانک اور بغیر کسی انتباہ کے شہری یاسر البکار اپنے بچے کے ساتھ ہی فوت ہو گیا۔ وہ ایک چونکا دینے والے منظر میں بھوکا مر گیا جس نے اب گورنریٹ کے لوگوں کو بالخصوص اور تمام یمنیوں کو بالعموم ہلا کر رکھ دیا ہے۔
عینی شاہدین نے اطلاع دی ہے کہ "البکار” اچانک بغیر کسی وارننگ کے انتقال کرگیا۔ وہ اپنے ننھے سے بچے کو انتہائی صدمے کی حالت میں چھوڑ کر چل بسا۔شناختی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ البکاربدھ کی سہ پہر تک بھوکا رہا تھا۔ وہ روٹی اور دہی کا ایک ٹکڑا اور پانی کی ایک بوتل وصول کرنے سے پہلے ہی بھوک کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔
اس کے ساتھ ہی اس کا بچہ "عمار” موجود تھا جو اپنے ہاتھ میں کیک کا ٹکڑا اور جوس کا ایک ڈبہ کافی دیر سے پکڑے ہوئے تھا۔ یہ کیک اور جوس اسے ایک راہگیر نے دیا تھا۔ راہگیر نے سمجھا تھا کہ اس کا والد سو رہا ہے۔شہری البکار کے ساتھ ہونے والے اس انجام پر سماجی حلقوں اور سوشل میڈیا سائٹس پر غم کی کیفیت چھا گئی۔
اب اور باقی گورنریٹس میں بہت سے لوگوں کی جانب سے صدمے اور المیے کا اظہار کیا گیا۔ شہریوں نے حوثی ملیشیا کو اس کے افسوسناک انجام کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز حوثی رہنماؤں کے لیے دہشت گردی کے اکھاڑہ میں تبدیل ہو گئے۔ حوثی عیش و عشرت اور آرام دہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور ضرورت مند شہری بھوک سے مر رہے ہیں۔سماجی کارکن ابراہیم عسقین نے پلیٹ فارم ”فیس بک“ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ آج اب شہر میں ایک شخص فٹ پاتھ پر اپنے بچے کے ساتھ مر گیا۔
وہ بھوک سے اس وقت مر گیا جب گورنریٹ سے ڈیوٹی، ٹیکس، اوقاف، بہتری اور دیگر چیزوں کے نام پر اربوں وصول کیے جا رہے اور صعدہ میں حوثیوں کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ بھوک سے اس وقت مر گیا جس دوران حوثی نگران کھا کھا کر موٹاپے کا شکار تھے۔عسقین نے ایک اور پوسٹ میں مزید کہا کہیاسر البکار کی موت ہوگئی اور اس کی تصاویر دور دور تک لوگوں میں دیکھنے کے لیے پھیل گئیں۔ بہت سے لوگ اب گورنریٹ میں ظلم و جبر اور فالج اور دل کے دورے کے درد سے مر رہے ہیں اور ان کے بارے میں کسی کو بھی علم نہیں ہو رہا۔
یہ لوگ اس وقت فالج کا شکار ہوتے ہیں جب وہ خود کو اپنے بچوں اور خاندانوں کے لیے روزی فراہم کرنے کے قابل نہیں پاتے ہیں۔ایکٹوسٹ محمد قائد القاضی نے بھی لکھا کہ اب گورنریٹ میں ایک شخص منہ میں دہی سے ملے ہوئے روٹی کا ٹکڑا رکھے مر گیا۔ اس کے پاس اس کا بچہ الجھن اور خوف سے بھری آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
اس کے بعد کون سا ظلم باقی رہ گیا؟ اس سے بڑھ کر اور کیا درد ہے کہ ایک باپ اپنی بھوک مٹانے کی کوشش میں مر رہا ہے؟”انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا ملک بھوک سے موت کی منزل پر پہنچ چکا ہے۔ لوگ اپنی عزت کے ساتھ مر رہے ہیں۔ اے اللہ تو ہمارا حال جانتا ہے تو ہم سے ناانصافی کو دور کرنے پر قادر ہے۔ اس لیے تمام پریشان حال لوگوں کو راحت دے اور بھوک اور ظلم سے مرنے والوں پر رحم فرما۔