افغانستان میں یونیورسٹیز دوبارہ کشادہ ، خواتین کی تعلیم پر امتناع برقرار
افغانستان میں سرما کے وقفہ کے بعد یونیورسٹیاں آج دوبارہ کشادہ ہوگئیں اور طلباء اپنی جماعتوں میں واپس ہونے لگے لیکن طالبان حکام نے خواتین پر پابندی ہنوز برقرار رکھی ہے۔

کابل: افغانستان میں سرما کے وقفہ کے بعد یونیورسٹیاں آج دوبارہ کشادہ ہوگئیں اور طلباء اپنی جماعتوں میں واپس ہونے لگے لیکن طالبان حکام نے خواتین پر پابندی ہنوز برقرار رکھی ہے۔
اگست 2021 میں طالبان اقتدار پر فائز ہوئے تھے جس کے بعد خواتین پر متعدد تحدیدات عائد کی گئی ہیں جن میں یونیورسٹی امتناع بھی شامل ہے جس پر عالمی سطح پر برہمی پیدا ہوگئی جن میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔
وسطی صوبہ Ghor کی 22 سالہ راحلہ نے بتایا کہ بچے یونیورسٹی جارہے ہیں اور ہمیں گھر پر ہی رہناہے جو ایک دلخراش بات ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لڑکیوں کے خلاف یہ جنسی امتیاز ہے کیونکہ اسلام ہمیں اعلی تعلیم کی اجازت دیتاہے کوئی بھی ہمیں علم حاصل کرنسے نہیں روک سکتاہے۔
طالبان حکومت نے خاتون طالبات پر الزام عائد کیاتھا کہ وہ سخت گیر ضابطہ لباس کی خلاف ورزی کررہے ہیں جبکہ کیمپس آنے اور جانے کے ان کے ساتھ ایک مرد ہوناچاہئے تاہم اسی لیے خواتین پر امتناع عائد کردیاگیا ہے۔ بیشتر یونیورسٹیوں میں خواتین اور مردوں کے لیے علحدہ داخلے انٹرنسس اور کلاس رومس رکھے گئے ہیں اور خواتین کو صرف خاتون پروفیسر س یا معمر مردوں کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ہیرات یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس کے طالب علم محمد حسیب حبیب زادہ نے بتایا کہ لڑکیوں کو آج تعلیم سے محروم رکھاجارہاہے جو بڑی دکھ دینے والی بات ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم لکچررس اور دیگر طلباء سے بات چیت کے ذریعہ اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ایسا راستہ تلاش کیا جائے جس کے ذریعہ لڑکیاں اور لڑکے مل جل کر تعلیم کے ساتھ ترقی حاصل کرسکیں۔