سیاستمضامین

ایک اکیلا۔۔۔ اڑتیس کا سہاراہوا بدل رہی ہے۔ ہوا نکل رہی ہے

ظفر عاقل

بڑوں میں سے سب سے بڑے زاعفرانی۔۔۔ کا عہد تھا کہ کانگریس مُکت بھارت ہوکر رہے گا اور چھوٹے سے بعد کے چھوٹے ایں قدکا اعلان تھا کہ علاقائی پارٹیوں کی دیس میں کوئی جگہ باتی بچی ہے اور نہ ہی ضرورت ہے چنانچہ علاقائی پارٹیوں سے دیس کو مکتی دِلا کر رہیں گے۔ اسی طرز کا ایک اور زعم "ایک اکیلا”بھی سامنے آیا ہے اور موجود دُم کٹوں نے تالی پیٹ پیٹ کر اپنی سیاسی مردانگی سے تہی دستی و َ بے بسیکے احساس کو اشتہار بنا کر چھوڑا؛یہ اہنکاری زعم زد ہ فخریہ اعلان اور للکاراُن کے اپنوں ہی نے نہیںبلکہ دیس بھر نے سنی۔۔۔ کہ "سب پر بھاری” ہے۔پاؤں بھاری ہوتے ہیں سنا تھا لیکن شومئی قسمت کہ۔۔۔سارا وجود بھاری ہوجائے گا یہ ایک نادرمثال اور نمونہ دیس اور دیس واسیوں کی قسمت میں لکھا ہے معلوم ہوا ہے۔
ہاتھیوں کے بارے میں مثل مشہور ہے کہ ایک فوج پر بھاری ہوتا ہے لیکن انسانی جَن جاتی میں سے اس طرح کا اعلان اور اس قماش کارویہ۔۔۔ جب بھی اور جو کوئی بھی۔۔۔اختیار کرتا ہے تو اس کا انجام اس گیدڑ کی طرح ضرور ہوتا ہے کہ جب موت آتی ہے تو وہ انسانی بستیوں کا رُخ کرتے ہیں اور شومئی قسمت سیبسااوقات راج سنگھاسن پر آسین بھی ہوجاتے ہیں ؛قدرت کے کرشمے ‘ان کا اظہار اِنہی بد قماش بد زبانوںکے لیے گاہے گاہے سامنے لائے جاتے ہیں کہ بعض متکبر اپنی حیثیت کی محدودیت کو بھلاکر حدود پارکر جایا کرتے ہیں؛چنانچہ ان کا انجام جلد یا بدیر سامنے آہی جاتا ہے۔کوئی اس کو مادّی آنکھ سے دیکھ کر یقین کرتا ہے اور کوئی اپنی بصیرت و فہم و دانش کی نگاہوں کو بروئے کار لا کرہونے والے واقعات کو ہوتا دیکھتے ہیں یا آگاہ ہوجاتے ہیں۔بھارت فی زمانہ انہی ایام و واقعات کا مرجع و منبع بنا ہوا ہے۔
طرم خان اپنے آپ کو سمجھنے والے بے رحم جابر و متکبر دراصل داخلمیں بزدل اور ڈرپوک چوہے ہوتے ہیں لیکن گاہے بہ گاہے باورضرور کراتے ہیں کہ گویا وہ شیر ببر یا (اِمپورٹڈ)چیتے ہیں۔یہ خوف وَبدحواسی کی فراوانی ہی تھی کہ پَپّومشہوروَبدنام کیے گئے ایک بیچارے کی سَدَن(پارلیمنٹ) میں موجودگی سے اتنا خوف زدہ تھے جیسے سگ گزیدہ(Dog bitten) پرپانی کو دیکھ کر بدحواسی انگ انگ پر رَنگ رنگ کے پرتؤ لاتی اور چھاتی چلی جاتی تھی۔خوف اتنا تھا کہ پہلے پپو بنانے کے سو ہزار جتن میں سارا پریوار جٹا رہا بلکہ ہزار ہا ہزار کروڑ خرچ کر ڈالے اور اس پر بھی اطمینان نہ ہو پایا توایک موذی کے ذریعہ عدلیہ کا سہارا لے کر سنسد مکت کراکر چھوڑا بلکہ بے دردی سے بنگلہ سے بھی بے دخل کرانے میںعار وَشرم یاکوئی حرج بھی محسوس نہ ہوا۔لیکن حاصل یہ حاصل ہوا کہ مثل اُلٹی ہوئی سب تدبیریں والا معاملہ ہر روز کسی نہ کسی شکل میں متشکل ہوکر دِ ن کے خوابوں کوبھی ڈراؤنے بنا کرگھر کا رکھا نہ گھاٹ کا ہوچکا ہے اور باڈی لانگویج اور لانگویج دونوں بتا رہے ہیں کہ کرب کا کیا عالم ہے۔اتفاق ہے کہ ہر ہونی ڈراؤنی ہوتی جارہی ہے۔
بھارت دراصل ایک نازک حساس اور سنجیدہ مرحلہ سے گزر رہا ہے؛اور بجائے خود جمہوریت اور دستور اور انسانی آزادی و حقوق اور 1947میں قربانیوں کے عوض حاصل کی گئی آزادی دار(سولی) پر چڑھادی گئی ہے۔:یونین آف statesہونے کے ناطے دفعہ 370سے جڑا کشمیر کا معاملہ نیزریاستوں کے حقوق اور ان کی محافظت اور ان پر مرکزی بیجا قدغن سے بچانے کے لیے( سپریم کورٹ کے5رکنی دستوری بنچ متفقہ فیصلہ کے باوجود وَمابعدمرکز کا آرڈیننس یعنی عدالتی قانونی طاقت بالمقابل56انچ موٹی چمڑی آرڈیننس زیر بحث آچکا ہے) حکومت دہلی کا کیس ۔۔۔اور اظہار آزادی‘کے علاوہ۔۔۔آمریت کے بالمقابل جمہوریت کی بقا‘فری speechاور سیاسی دائرہ کار میں سرکار پر تنقید نیز سامراجی باقیات سے جڑاہتک عزت کے قانون فوجداری سے منسلک راہول گاندھی پر مودی چور سرنیم کیس پر ریاستی نچلی و ہائی کورٹ کے مخصوص رویوں پر مشتمل کیس پر دیس پردیس کی نظریں جڑی ہیں۔بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا راہول گاندھی پرہتک عزت کا کیس انفرادی نوعیت سے زیادہ دراصل سپریم کورٹ اور عدلیہ کی ساکھcredibilityکا سوال بن گیا ہے؛نیز تحت کی عدالت کے حدود کار بھی حصہ ہیں۔
راہول گاندھی کیس میں بجلی سرعت کے ساتھ ہتک عزت معاملہ میں نچلی عدالت کا حد غایتMaximumسزا جس سے سنسند سے اخراج اور 2سال کی جیل نیز بعد میں 6سال انتخابات سے دوری اس طرح کُل 8سال کی سیاست سے دوری پر منتج ہوتی ہے۔لیکن دفعہ499/500اس وقت لگتا ہے جب کسی متعین کردہ گروہ کی بے عزتی کی جائے جب کہ مودی سر نیم کوئی متعین گروہ نہیں ہے؛مودی گروہ میں ہندو OBCکے علاوہ جین اور مسلمان بھی مودی ہوتے ہیں۔مودی کوئی صرف گجرات میں ہی نہیں بلکہ لگ بھگ 13کروڑ دیس کے مختلف حصوں میں قیام پذیر ہیں؛سب چوروں کے نام مودی کیوں ہے ان میں جن تین ناموں کو گنایا گیا ہے ان میں شکایت کنندہ پُرنیش کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کے خلاف تھا؛اورشکایت کردہ نے نہیں بتایا کہ کس طرح کی مان ہانی ہوئی ہے؛مذکورہ بیان 2019میں سیاسی تقریر کا حصہ تھا اور مودی گروہ منجملہ کو بدنام کرنے کی نیت تھی؛انتخابات کے دوران سرکار اور پالیسی و کارکردگی و فیصلوں پر تنقید کے حق کو متاثر کردیا جائے تو جمہوری طرز حکومت کا وجود ہی ختم ہوجائے گا؛بلکہ عدالت نے سمجھنے میں غلطی کی ہے کہ اس اپرادھ کے لیے حد آخر سزا کی ضرورت ہے اور بیان کو اخلاقی بدنیتی پر محمول کیا ہے جب کہ وہ سیاسی اظہار حقیقت تھا۔
منی پور کو ووٹ بنک کی زاعفرانی دیگ پر دہکانے والا معاملہ مئی سے کئی ماہ قبل ہی بازیگروں کے ہاتھوں میںکٹ پتلی بن چکا تھا اورنفرت و منافرت کے بیج منی پور کی ہندو مئیتی اورکرسچین ٹرائبل کوکی ناگا کمیونٹی کے بیچ بونے سے شروع ہو چکے تھے؛ مارچ میںجب عدلیہ نے مئیتی کو شیڈول ٹرئبل موقف دیا تب یہ اپنے انتہا کو پہنچ گیا؛بھاجپا کی نظر53% اکثریتی مئیتی سماج پر جو اپنے سابقہ دھرم کو تیاگ کر ہندو بن چکی تھی اور یہ ایک طرفہ ہوجاتے تب بھاجپا کو الکشن میں شکست دینا ناممکن ہوجاتاہے۔منی پور میں 150سے زاید ہلاکتیں ہوچکی ہیں‘کئی سو گرجا گھروں میں آگ لگائی گئی ہے‘50ہزارسے زائد بے گھر ہوچکے ہیں بتایا گیا ہے؛نیزیہ بھی کہ منی پور ٹریننگ سنٹر‘منی پور ریزرو بٹالین اور منی پور رائفلس کے پاس سے4500سے زاید ہتیار اور6.32لاکھ بُلیٹس کے راؤنڈ لوٹ لیے گئے‘اور پانچ دس پرسنٹ کوکی ناگا کے پاس اور باقی vallyمیں مئیتی ایریا میں ہیں خیال کیا جارہا ہے؛ اور امیت شاہ کی اپیل پر چند سو ہتیار ہی واپس ہوئے ہیں ؛منی پور کا اثر باقی علاقوں میں بشمول میزورم میں ہونے کے قوی خدشات ہیں۔
3May23کو احتجاج کے بعدشروع ہوئے نسلی جنگ و جدال مفادات حاصلہ کی نظر ہوگئے اور ہنوز منی پور اسی آگ میں سلگ رہا ہے۔4Mayکو 2کوکی خواتین کو برہنہ گشت کرایا گیا‘بے شرمی کی انتہا کہ ان کے جسم کے مخصوص حصوں پر بوالہوسی کے ہاتھ اور انگلیاں شیطانی عمل کررہے تھے اور مابعدسیتا کی ان بیٹیوں کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی؛دورِحاضر کی دروپدی کا چیر ہرن کا یہ زاعفرانی فسطائی ہندوتؤ وادی نمونہ ہے جس کو دیکھ سمجھ کر باقی بھارتیوں کی بدھیوں میں یہ آجانا چاہیے کہ انسانیت پر یہ ایک بدکار سیاہ دھبّہ ہے]اور بھارتی سنسکرتی کے خلاف بھی ہے۔روح اور ضمیر سے عاری پولیس کو FIRدرج کرتے 18Mayآگئی؛ لیکن دیس کا میڈیا اور ڈبل انجن کی سرکار چُپّی سادھے رہی حتیٰ کہ 19Mayکو اس کا ویڈیو دنیا بھرمیںوائرل ہوگیا اور بوال مچ گیا سوشل میڈیا پر طوفان اُٹھ کھڑا ہوانیز 75روزسے خاموش سپریم کورٹ بھی سو موٹوایکشن لینے پر مجبور ہوگیا؛چنانچہ سپریم کورٹ پر بھی حیرت وَافسوس واجب ہے؛منی پورCMبیرن سنگھ کو انڈیا ٹوڈے رپورٹر سے کہتے شرم نہیں آئی کہ گراؤنڈ زیرو پر ایسے 100واقعات ہوئے ہیں؛
یہی بات مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی وزٹ(29Mayکی رات سے 2Jun)پر کوئی کہہ دے تو عجب کیا کہ حقیقت بیانی ہوسکتی ہے؛اس وزٹ کے بعد بھی یہ شرمناک وَ ہولناک انسانیت سوز واقعہ پبلک اور میڈیا میں نہ آسکا ہے۔PMمودی ان سارے 77دنوں تک نہ منی پور کا دورہ کیا اور نہ ہی منی پور کے لیےMیا میم کو اپنے منہ سے نکلنے دیا جب کہ سوشل میڈیا اور اپوزیشن اور ہومن آرگنائزیشن بلکہ منی پوری مطالبہ کرتے رہے۔ ؛جب کہ مودی فارن وِزٹ برائے جاپان(19May)‘( گینیا21May)‘(آسٹریلیا22May)‘امریکہ اور UNO(20Jun)‘(مصر 24Jun)‘( فرانس 13Jul) اور UAEکا دورہ15Julکرنے میںمشغول رہے؛اور آخر کارجب سپریم کورٹ کا غضب کھلے عام سامنے آگیا ۔۔۔تب پارلیمنٹ کے اندر نہیں بلکہ باہر کم وبیش ایک منٹ ہی سہی مودی کے منہ سے منی پور آیا بھی تو اپوزیشن کانگریس کی ریاستوں راجھستان اور چھتیس گڑھ کے ساتھ!!! وائے افسوس کہ انسانیت بھی بدقماش سیاست سے مات کھاگئی‘اور لَجّا(shame)بھی حیا وَشرم سے پانی پانی ہوکر ڈوب مرگئی۔
عدالت نے سالیسٹر جنرل کو بلا کر مرکزی حکومت سے اندروں 7 یون جواب اور وضاحت دینے کہا ‘ اور یہ رپورٹ بھی طلب کی گئی کہ سرکار اپنے اقدامات کو ظاہر کرے‘ورنہ سپریم کورٹ از خود ایکشن لے گا؛سپریم کورٹ کا ردعمل تھا کہ منی پور میں عورتوںپر حملہ اور یون ہنسا کا جو ویڈیو کل کے میڈیا میں دیکھا ہے اس سے کورٹ بہت آہت ہے؛کورٹ کی یہ رائے ہے کہ سرکار عدالت کو بتائے کہ مجرموں کو سزا دینے کے لیے اور ایسے واقعات نہ ہوں سرکار نے کیا اقدامات کیے ہیں؛جو تصویریں میڈیا میں آئی ہیں وہ دستور اور انسانی حقوق کی پامالی کو موجب ہیں‘دستور ہند اور عوامی جمہوریہ میں کوئی گنجائش نہیں کہ تناؤپور ماحول اور تشددپھیلایا جائے اور اس کے لیے عورتوں کا استعمال بالکل قابل قبول نہیں ہے؛عدالت مرکز اور ریاست کو یہ حکم دیتی ہے کہ وہ فوراًکاروائی کرے اور کورٹ کو مطلع کرے؛کورٹ سے امید تھی کہ وہ یہ پہلے کرگزرتی؛کیونکہ امریکہ یووپین پارلیمنٹ اور سفیر امریکہ کے بیانات اور ریزولیشن پہلے آکر بھارت کی بدنامی کا سبب بن چکے تھے۔صدر جمہوریہ‘مرکز اور وزارت داخلہ و پی یم کوریاستی گورنر کی رپورٹس ضرور آتی رہی ہیں؛اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کا وورہ منی پور بھی ہوگیا ہے؛اور اب سنسد میں PMکے بیان کے مطالبے پر دو روز سے پارلمنٹ ہنگامے کی نذر ہوچکاہے؛اور جواب PMیا داخلہ کی بجائے ڈیفنس منسٹر راج ناتھ سنگھ دے رہے ہیں؛ایسا لگتا ہے کہ آوا کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
مودی اور بھاجپا کا 140کروڑ کے ساتھ خود کو منسلک کرنا ایک بھرم اور بھٹکاوے کو جنم بھی دیتا ہے اور اس طرح ووٹ بنک کو متاثر کرنے کا موجب بھی بنتا ہے؛بھاجپا کا اصل ووٹ بنک کم وبیش20%ہی تھا لیکن اپوزیشن کو منتشر کرنے کے لیے ایجنسیز کا استعمال اور خود کے پالے میں لے کر واشنگ کرانے کے عمل سے مجبوراًکوئی راہ غیر اقتداری سیاسی پارٹیوں کے لیے بچی نہیں رکھی گئی ہے۔میڈیا کا اغوا اور عوام تک انفارمیشن و اطلاعات پر تحدید سے حقیقت پوشیدہ رکھی جاکر اپوزیشن کا عوام کے درمیان اعتماد ختم کرنے کی مسلسل سازش رچی جارہی ہے۔ اشتہارات کی بھرمار اور میڈیا پریس اور TVپر ایک ہی پرچار سے جنتا کے ذہن کو مسحور کردیا جارہا ہے ؛ان سارے ہتکھنڈوں کے باوجودبھاجپا 35-40%کے اطراف ہی ہے۔اٹارسی جنکشن کے نیچے کنیاکماری تک بھجپا کاکوئی CMنہیں ہے ؛دو تین ریاستوں میں بھاجپا کی راست حکومت ہے جب کہ مانگے کے سیندور اور زبردستی کے رکھیل کو ساتھ لے کر زاعفرانی shadesکا پرچارکیا جاتا ہے۔سب کا ساتھ محض ایک کھوکلا نعرہ بن کر رہ گیا ہے؛مسلمانوں کے بعد منی پور میں عیسائی برادری کا نمبر لگاہے؛دلتوں کے ساتھ برتاؤ دن کے اجالے کے مثل ہے؛مسلم ووٹ بنک میں سیند ماری کے لیے پچھڑے مسلمانوں پر پریم چھلکا یا جارہا ہے۔کوئی سیاسی پارٹی اور قائد قہر زاعفران سے بچا نہیں ہے شیوسینا کے بعد NCPکے اعلان کردہ نامزد کو ساتھ میں لے کر ڈپٹی CMبنانے کا ہنر سوائے بھاجپااور مودی کہ کسی اور کو آتا نہیں ہے۔
بہارپٹنہ میں 15اپوزیشن کامیاب بیٹھک کے بعد17-18Julکوبنگلور میں26پولیٹکل پارٹیز اور 50سے زیادہ لیڈرس کی دوسری کامیاب میٹنگ نے بھاجپا میں بھونچال مچا دیا ہے؛گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ PMمودی نے ان تمام کو بھرشٹ لیڈرس کی میٹنگ قرار دیا ہے اور فوراً سے پیشتر 18julکو اشوکا ہوٹل میں نیم مردہ NDAمیں چھوٹے موٹے اور دھتکارے و دُور کیے گئے کو گلے لگا کر 38پارٹیز میٹنگ کا نام دیا گیا۔اپوزیشن نے اپنے مورچے کے نام کے مخفف کواس طرح ترتیب دیا کہ وہINDIAبن گیا ہے اور NDAوبھاجپا کو چیلنج دیا گیا کہ وہ ضرورINDIAسے شکست کھائے گا۔اپوزیشن کی اگلی میٹنگ ممبئی میں رکھی گئی ہے تاکہ باقی اگلے مرحلوں کی تکمیل کی جائے۔ممتا‘کیجریوال ‘پوار‘ادھو‘اسٹالن‘نتیش ‘لالو اور اکھلیش کے علاوہ کشمیر سے محبوبہ وعبداللہ کی شرکت نے اپوزیشن کے کشمیر تا کنیاکماری INDIAکے سیاسی پارٹی اور لیڈرس کو ایک منچ پر جمع کردیا ہے اور اس اتحاد نے بھاجپا کی امیدوں کو شمشان کا راستہ دکھانے کا اہتمام کردیا ہے۔چنانچہ 56انچ کی موٹی چمڑی پر نکیل کسی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہوا بدل رہی ہے اور ہوا نکل رہی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w