مضامین

بھارت جوڑو یاترا سے بی جے پی خوف زدہ کیوں؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے جب ملک کو جوڑے رکھنے کی نیت سے بھارت جوڑو یاترا کا اعلان کیا تھا تو یہی تصور کیا جا رہا تھا کہ کانگریس کے چند لیڈر اور کارکن راہول گاندھی کے قافلہ میں شامل ہوکر ان کا ساتھ دیں گے اور اس کا کوئی اثر ملکی سیاست پر نہیں پڑے گا، لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے راہول گاندھی کی یہ یاترا عوام کے دلوں میں جگہ بنانے لگی۔ سماج کے ہر طبقہ سے لوگ اس میں شامل ہونے لگے۔ 7 ستمبر کو تامل ناڈو کے کنیا کماری سے یہ یاترا شروع ہوئی اور 2,800کیلو میٹر کا سفر کرکے 24 ڈسمبر کو دہلی پہنچ چکی ہے۔ یہ یاترا کنیا کماری سے کشمیر تک نکالی جارہی ہے۔ اب تک یہ یاترا تامل ناڈو، کیرالا، کرناٹک ، آندھرا پردیش، تلنگانہ ، مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش، راجستھان اور ہریانہ کے علاوہ دہلی شہر کا احاطہ کر چکی ہے۔ 24 ڈسمبر کی شام دہلی کے لال قلعہ پر راہول گاندھی کے خطاب کے بعد یاترا کو نو دن کا بریک دیا گیا۔ اس وقفہ کے بعد یاترا دوبارہ شروع ہو گی اور ملک کے دیگر علاقوں سے گزرتے ہوئے کشمیر پہنچے گی جہاں اس کا اختتام ہوگا۔ راہول گاندھی کی اس یاترا کا جس والہانہ انداز میںاستقبال کیا جا رہا ہے اور ہزاروں افراد اس میں شامل ہو رہے ہیں اس سے بی جے پی کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ ملک میں کورونا کے پھیلنے کے خدشات ظاہر کرتے ہوئے بھارت جوڑو یاترا کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کورونا کی وباءاگر واقعی ملک میں پھیل رہی ہے تو اس کے لیے حکومت کی جانب سے کیا احتیاطی اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس کی کوئی تفصیلات پیش نہیں کی جا رہی ہیں۔ بر سراقتدار پارٹی ہزاروں لوگوں کو جمع کرکے ریالیاں نکالے اور جلسے کرے تو اس وقت کورونا کہاں غائب ہوجاتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ بی جے پی ، راہول گاندھی کی یاترا کو روکنا اس لیے چاہتی ہے کہ کانگریس پھر سے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کا میاب نہ ہوجائے۔ راہول گاندھی نے یاترا کے آغاز پر ہی یہ واضح کر دیا کہ اس یاترا کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ہیں۔ وہ ملک کو جوڑے رکھنے اور ملک سے نفرت کو ختم کرنے کے لیے یہ یاترا نکال رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر سیاسی افراد بھی اس یاترا میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ دہلی میں تقریر کرتے ہوئے راہول گاندھی نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ اس یاترا کا مقصد محبت کی ددکان، نفرت کے بازار میں کھولنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں سے جہاں یہ یاترا گزری انہوں نے ہر طرف آپس میں محبت کے جذبات دیکھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کا میڈیا ، حکومت کے دباو¿ میں آکر حقائق کو پیش نہیں کر رہا ہے بلکہ چوبیس گھنٹے ہندو۔ مسلم کی رٹ لگایا ہوا ہے۔ حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ہندوو¿ں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کی جا رہی ہے۔ راہول گاندھی کے یہ ریمارکس ملک میں بحث کا موضوع بن رہے ہیں اور ملک کا سنجیدہ طبقہ اس پر غور و فکر بھی کر رہا ہے۔ اسی سے بی جے پی کی الجھن بڑھتی جا رہی ہے۔ جس پارٹی نے ملک کو کانگریس سے مُکت کرنے کا خواب دیکھا تھا ، بھارت جوڑو یاترا سے معاملہ الٹا ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس لیے بی جے پی کو اس یاترا سے خوف محسوس ہونے لگا ہے۔ راہول گاندھی نے اپنی بھارت جوڑو یاترا کو غیر سیاسی قرار دیا ہے لیکن ہر سیاسی پارٹی کے ہر کام کے پیچھے کچھ نہ کچھ سیاسی عزائم ہو تے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بغیر سیاسی مقاصد کے کو ئی کام نہیں کرتیں۔ راہول گاندھی کی اس یاترا کے بھی سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ ایک قدیم پارٹی ہونے کے ناطے وہ اپنے ایجنڈہ کے مطابق اس یاترا کو منظم کی ہے، تو بھی کوئی غلط بات نہیں ہے۔
راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا ایک ایسے وقت نکالی گئی ہے جب کہ ملک انتہائی سنگین دور سے گزر رہا ہے۔ ہندوستان کی صدیوں قدیم روایات کو تہس نہس کر کے ایک خاص تہذیب اور ایک خاص مذہب کو ملک کے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نفرت اور عناد کی ایسی زہریلی فضاءتیار کی جا رہی ہے کہ انسانیت کی اعلیٰ قدریں قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ ملک کی اکثریت کے ذہنوں کو اس قدر آلودہ کر دیا گیا کہ وہ اقلیتوں کو اپنا دشمن تصور کر رہی ہیں۔ قانون اور دستور کی باتیں صرف کتابوں تک محدود ہو گئی ہیں۔ طاقت کے بَل پر وہ سب کیا جا رہا ہے جو جمہوریت کے عین خلاف ہے۔ ملک کا ماحول اس قدر مکدر کر دیا گیا کہ ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے دور رہنے میں اپنی عافیت سمجھ رہے ہیں۔ نفرت کے ایسے ماحول میں کسی بھی پارٹی کا لیڈر محبت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے نکلتا ہے اور ملک کو جوڑنے کی بات کرتا ہے تو اس کا ساتھ دینا اخلاق کا تقاضا ہے اورملک کی اہم ضرورت ہے۔ ملک کی موجودہ فضاءکو قابو میں رکھنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پروان چڑھانے کے لیے ایسی کوششیں مشترکہ طور پر ہوتی ہیں تو اس سے وہ سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں جو اس وقت ملک کو درپیش ہیں، لیکن ملک کی فسطائی طاقتیں ملک کے عوام کو بانٹ کر ہی اپنے سیاسی قد کو بڑھانا چاہتی ہیں، اس لیے راہول گاندھی کی یاترا میں روڑے اٹکانے کی سازش رچائی جا رہی ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ نفرت کی بنیاد پر کوئی ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ ملک کے کسی طبقہ کو حاشیہ پر لا کر ملکی ترقی کی باتیں کرنے سے اس پر کوئی یقین نہیں کرتا۔ مسجد۔ مندر کی سیاست کرکے بی جے پی اس مقام تک پہنچ گئی ہے، لیکن اب بھی وہ حقیقی مسائل کو حل کرنے کے بجائے متنازعہ موضوعات کے سہارے ہی آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے پیغام کو اگر عوام سمجھ جائیں گے تو پھر نفرت کے بازار کو بند کرنا ہی پڑے گا۔ سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس یاترا میں شمولیت نے ملک میں ایک سیاسی ہلچل پیدا کردی ہے۔ اسی لیے یاتراکو کسی نہ کسی بہانے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب جب کہ راہول گاندھی کی یہ یاترا ملک کے اہم علاقوں سے گزر چکی ہے اور عوام میں اس کے ذریعہ ایک نیا جوش و خروش پیدا ہوا ہے ۔ اس سے بھی بی جے پی کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔ سمجھا جا رہا تھا کہ اس ملک کو کانگریس سے مکت کرالیا گیا اور اب کانگریس میں کوئی دم خم بھی باقی نہیں رہا۔ لیکن تین مہینوں کے دوران کانگریس نے اپنی جو ساکھ بنائی ہے اس سے اندازے لگائے جارہے ہیں کہ آنے والے 2024 کے عام انتخابات میں کانگریس کا مظاہرہ بہتر رہے گا۔ راہول گاندھی کی یہ محنت رنگ لائے گی اور بی جے پی کو یکطرفہ کامیابی ملنے کے امکانات اب کم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یاترا کو عوام میں جو پذیرائی مل رہی ہے، اسی سے بی جے پی گھبرائی ہوئی ہے۔ اس یاترا نے راہول گاندھی کی شخصیت کو سمجھنے کا لوگوں کو موقع دیا۔ یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ راہول گاندھی ، ملکی سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کانگریس کے سینئر لیڈروں نے انہیں محصور کر کے رکھ دیا تھا، لیکن اس یاترا کے ذریعہ راہول گاندھی نے اپنی شخصیت کو منوایا۔ جس انداز میں وہ بات کر رہے ہیں اس کا جواب دینا بی جے پی لیڈروں کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے وہ کووِڈ وباءکے بھیس میں سیاسی کھیل کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے کووِڈ کا ہّوا سارے ملک میں کھڑے کردیں اور عوام کو دہشت زدہ کر تے ہوئے کچھ پابندیاں بھی عائد کردیں۔ ان سارے ہتھکنڈوں کو آزمانے کے باوجود بھی بی جے پی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ملک کو کانگریس سے مکت کردے۔عوام بی جے پی حکومت سے اس قدر نالاں ہو چکے ہیں کہ اب مزید اس پر بھروسہ کرنے تیار نہیں ہیں۔
بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ ملک کا عام آدمی امن و انصاف کا خواہاں ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ حکومت کسی بھی پارٹی ہو، لیکن شہریوں کو اطمینان اور سکون کی زندگی نصیب ہو ۔ یہ خواب اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب ملک میں امن و امان کی فضاءہو۔ آج ملک میں جوگھٹن کا ماحول دیکھا جا رہا ہے، اس کو ختم کرنے کے لیے ملک سے نفرت اور خوف کاخاتمہ ضروری ہے۔ عوام میں محبت اور خلوص کی شمع روشن ہو گی تو یہ ملک ترقی کی ہر منزل کو طے کر سکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ملک میں افراتفری پھیلائی جا رہی ہے۔ کبھی سی اے اے کا مسئلہ کھڑا کر دیا جا تا ہے اور کبھی یکساں سول کوڈ کی راگنی شروع ہو جاتی ہے۔ کبھی تبدیلی مذہب کے نام پر مسلمانوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور عیسائیوں پر فرقہ پرست اپنا غصہ اتارتے ہیں۔ گز شتہ ساڑھے آٹھ سال سے یہی اس ملک کا مقدر بن گیا ہے۔ ایسے بادِ سموم کے موسم میں اگر کوئی پیار و محبت کی بات کرتا ہے اور ملک کو جوڑنے کے لئے ہزاروں کیلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرتا ہے تو عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ حب الوطنی میں کون آ گے ہے۔ کیا وہ لوگ محب وطن ہو سکتے ہیں جو زانیوں اور قاتلوں کو نہ صرف جیلوں سے رِہا کراتے ہیں بلکہ انہیں اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ممبر بناتے ہیں۔ وہ عناصر کیا ملک سے سچی محبت رکھتے ہیں جو ملک کے عوام کو روزگار نہیں دے سکتے لیکن اڈانی اور امبانی کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ہندوستان کے وہ مجاہدین آزادی ، جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر کے اس ملک کو آزاد کرایا تھا آج ان کا تذکرہ بہت کم ہو تا ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے انگریز سے معافی چاہی تھی اور تحریک آزادی کے دوران انگریزوں کے مخبر بن کر کام کیے تھے وہ آج مجاہدین آزادی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی تصویریں پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال اور ریاستی اسمبلیوں میں لگائی جا تی ہیں۔ گاندھی کے قاتل کا نام بڑی عزت و احترام سے جہاں لیا جارہا ہے، تصور کیا جاسکتا ہے یہ ملک اب کس کے ہاتھوں میں آ گیا ہے۔ اس نازک وقت بھی اگر ملک کو جوڑنے کی کوئی کوشش کسی بھی جانب سے ہو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ راہول گاندھی کے اقدامات اور کانگریس کی پالیسیوں سے اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن جس مقصد کی خاطر راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا منظم کی ہے وہ آج ملک کی شدید ضرورت ہے۔ ملک کو متحد رکھے بغیر ملک کی ترقی محض ایک خواب ہے۔ اسی طرح نفرت اور تعصب کو ختم کئے بغیر اخوت اور بھائی چارہ کے ماحول کو قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔ آج ہر مسئلہ مذہب کی بنیاد پر دیکھا جا رہا ہے۔ راہول گاندھی کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ میڈیا میں سوائے ہندو۔ مسلم کے کسی اور اہم مسئلہ پر مباحث نہیں ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا جا رہا ہے۔ اس سے ملک میں جو فضاءبن رہی ہے اور خاص طور پر نوجوان ذہن بگاڑے جا رہے ہیں ، اس کا خمیازہ آنے والی نسلوں بھگتنا پڑے گا، لیکن سیاسی مقاصد کو سامنے رکھنے والوں کو اپنے ملک کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس لیے ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہے۔ راہول گاندھی کی یاترا کی بی جے پی مخالفت کرے گی لیکن ملک کی سیکولر پارٹیاں بھی بھارت جوڑو یاترا سے اپنی دوری بنائی ہوئی ہیں۔ اب جب کہ اتر پردیش جیسی ریاست میں اس یاترا کا آغاز ہونے والا ہے، وہاں کی دو اہم سیکولر پارٹیوں نے کانگریس کی دعوت کو قبول نہیں کیا۔ سماجودای پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ، بھارت جوڑو یاترا کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یوپی میں اس وقت جو صورت حال ہے اس میں تو چاہیے تھا کہ اکھیلیش یادو اور مایاوتی کھل کا راہول گاندھی کا ساتھ دیتے، لیکن سیاست کی مجبوریوں نے انہیں ایک اچھے کاز سے دور کر دیا۔ سیکولر پارٹیوں کی اسی تنگ نظری نے بی جے پی کو موقع دیا کہ وہ اقتدار کے سرچشموں پر قابض رہے۔