مضامین

بین الاقوامی عدالت انصاف اور جمہوری اقدار

منصور جعفر

عالمی طاقتوں کی جانب سے انسانی و جمہوری اقدار کی پاسداری ملمع کاری سہی، مگر اس عالم میں ٹھنڈی ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قرارداد کی صورت آیا ہے۔
یہ قرارداد جنرل اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کی ہے۔ قرارداد کے حق میں 87 ممالک نے ووٹ دیا اور مخالفت میں 26 ووٹ پڑے۔ اقوام متحدہ کی اس قرارداد میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ناجائز قبضے کا قانونی جائزہ لے اور اس کے اسرائیل کے لیے ممکنہ مضمرات سے آگاہ کرے۔
گویا جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی عدالت انصاف کی رائے مانگی ہے۔ اس رائے کی روشنی میں اسرائیل کے خلاف کارروائی کی راہ لی جا سکتی ہے۔ کچھ حقائق اس تناظر میں اہم ہیں۔ اس قرارداد کی امریکہ اور اہم اتحادیوں برطانیہ و جرمنی نے مخالفت کی ہے۔
اقوام متحدہ میں برطانوی نمائندے کا کہنا ہے کہ ’ہم نہیں سمجھتے کہ اس معاملے میں بین الاقوامی عدالت مفید ثابت ہو سکے گی۔‘
اسرائیل کے چھٹی بار پہلے سے زیادہ جابرانہ انداز کے اتحاد کے ساتھ بر سر اقتدار آنے والے نتن یاہو نے پورے تحکم اور نخوت کے ساتھ اس قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے ‘جہاں پہلے اقوام متحدہ کی سینکڑوں قراردادیں اسرائیل کے خلاف آ چکی ہیں ایک اور سہی۔ ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کا یہ عالم خوفناک ہے۔ ’جہاں سو وہاں سوا سو۔‘
ایک دوسرا پہلو جس کی بنیاد پر اسرائیل کو اندر سے تھوڑا خوف ہے وہ بین الاقوامی جرائم عدالت (آئی سی سی) کی طرف سے فروری 2021 میں مقبوضہ فلسطین کے علاقوں بشمول مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کو اپنے دائرہ اختیار میں قرار دینے کا اعلان تھا۔
اس لیے اس امر کا غالب امکان ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کے مطابق کارروائی ایسا رخ اختیار کر لے جو کسی حتمی رائے کی کمزوری کے باوجود اسرائیلی کے ناجائز قبضے کو بری طرح بے نقاب کرنے والی ہو۔
اسرائیل کو خوف ہے کہ مغربی کنارے کے اسرائیل کے ساتھ جبری الحاق، ناجائز یہودی بستیوں کی پہلے اور ممکنہ طور پر نئی توسیعات و تعمیرات پر تفصیلی بحث اس کے جابرانہ قبضے کو بے نقاب کرنے کا ذریعہ بنے گی۔
نیز مسجد اقصیٰ اور یروشلم کو ’یہودیانے‘ کی ساری سازشوں کو زیر بحث لانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں پر صبح شام جاری اسرائیلی مظالم اور ان کے گھروں کی مسماری و ناکہ بندیوں اور محاصرے سمیت ایک ایک چیز کا جائزہ اسرائیلی چہرے سے نقاب اتارنے کا موقع ہو گی۔
لیکن دوسری جانب اسی عدالت نے فلسطینیوں کی جون 2014 میں پیش کی گئی درخواست پر کچھ نہیں کیا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف اور دیگر عالمی اداروں کی طرف سے اسرائیل کو کھلی چھٹی دیے رکھنے کو پیش نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اب کی بار بھی عالمی عدالت سے زیادہ امید نہیں باندھنی چاہیے۔ نیز یہ کہ یہ عدالت فلسطینیوں کے حق میں اس قدر حساسیت نہیں دکھائے گی جس قدر یوکرین کے بارے میں حالیہ دنوں میں دکھا چکی ہے۔
بلاشبہ جنرل اسمبلی کی قرارداد اکیلی کافی نہیں ہو سکتی کہ یہ معاملہ اسرائیلی قبضے اور امریکی سرپرستی کے حوالے سے ہے۔ تاہم بین الاقوامی عدالت کے سامنے ایک پہلو جو جمہوری اقدار اور انسانی اقدار سے جڑ اہوا ہے نمایاں کرنا ضروری ہے۔
 اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ عالمی عدالت کو معاملات کا جائزہ بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر، معاہدات اور اقوام متحدہ قرارداداوں کے حوالے سے لینا ہو گا۔ لیکن بین الاقوامی قوانین جمہوری اور انسانی اقدار کی بنیاد پر تشکیل کا دعویٰ موجود ہے تو اس قرارداد کا جمہوری چہرہ بھی پیش کرنا ضروری ہے۔
خصوصاً ایسے ماحول میں جب دنیا بھر کی مقامی اور قومی عدالتوں سمیت یہ بین الاقومی عدالت بھی نہ صرف جمہوری و انسانی اقدار کی پاسداری کی بات کرتی ہیں اور اپنے فیصلوں میں بھی عام طور پر کثرت رائے کی افضلیت کو تسلیم کرنے کی بنیاد پر کرتی ہیں۔    
اقوام متحدہ کی یہ قرارداد بھی جمہوری چہرہ رکھتی ہے۔ اسے 26 ملکوں کی مخالفت کے مقابلے میں 87 ملکوں کی حمایت کی بنیاد پر منظور کیا گیا ہے۔ البتہ 53 ملکوں نے پسماندہ جمہوری سوچ اور حالات رکھنے والے ملکوں کے بے شعور اور خوابیدہ ضمیر بڑے لوگوں کی طرح ووٹ کے استعمال سے گریز کیا ہے۔
قرارداد کی حمایت کرنے والے 87 ملکوں کی آبادی تین ارب 98 کروڑ سے زائد ہے۔ گویا یہ دنیا کی کم وبیش آدھی آبادی کے نمائندہ لوگ ہیں۔ ان کے مقابلے میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے خلاف قرارداد کی مخالفت کرنے والے 26 ملکوں کی مجموعی آبادی 86 کروڑ سے زائد کی نمائندگی کرتی ہے۔
یہ 87 ملک دنیا کے کسی دور دراز کے کونے یعنی قطب شمالی منجمد کے خطے سے متعلق نہیں بلکہ تقریباً ہر براعظم کے رہنے والے جیتے جاگتے زندہ پائندہ لوگ ہیں۔ ان میں افریقی بھی ہیں، یوروپی بھی۔ ایشیائی بھی۔ مشرق وسطیٰ کے بھی سبھی ملک ان میں شامل ہے۔
عرب دنیا بھی پوری کی پوری، ان میں شامل ہے اور مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کے ایک رکن کے سوا اسرائیلی قبضے کے خلاف اس قرارداد کے حامی ہیں۔ شنگھائی تنظیم کے چین اور روس سمیت اکثریتی ملک اس کے ساتھ ہیں۔ سارک ممالک کی اکثریت بھی اس قرارداد کی حمایت میں ہے۔ حامی ممالک میں لاطینی اور جنوبی امریکہ کے ملکوں سے لے کر امریکہ کا براہ راست ہمسایہ میکسیکو بھی شامل ہے۔ مزید یہ کہ یوروپی ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ پوری دنیا کی نمائندہ آواز ہے۔
اگر ان 87 ملکوں کے رقبے کو دیکھا جائے تو بھی یہ قرارداد کے مخالف ملکوں کی اقلیت کے مقابلے میں وسیع رقبے کے حامل ملک ہیں۔ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے ممالک کا مجموعی رقبہ چھ کروڑ 97 لاکھ اور چار ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ جبکہ اسرائیلی قبضے کو جاری رکھنے کے بالواسطہ حامیوں اور ‘شریک جرم’ ممالک کا مجموعی رقبہ تین کروڑ 9 لاکھ 82 ہزار مربع کلو میٹر سے زائد ہے۔
یہ بھی اہم بات ہے کہ اس قرارداد کی حمایت میں وہ عرب ملک بھی شامل ہیں جنہوں نے معاہدہ ابراہم کے تحت حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں۔ وہ ملک بھی پوری شرح صدر کے ساتھ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف ہیں اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
اسرائیل کا کوئی ایک پڑوسی عرب ملک اس سلسلے میں اسرائیل کے ساتھ نہیں۔ پورا مشرق وسطیٰ اس معاملے میں یک آواز نظر آیا ہے۔ خود امریکہ اور برطانیہ کے پڑوسی ملک بھی ان کے اسرائیلی قبضے سے دونوں آنکھیں بند کرنے کے روہے کے ساتھ نہیں ہیں۔
پاکستان، ترکی، ملائشیا اور انڈو نیشیا اس قرارداد کے ساتھ ہیں۔ چین اور روس اس کے قرارداد کے حامی اور اس کے لیے ووٹ دینے والوں میں نمایاں طور پر شامل ہیں۔ البتہ بھارت نے اپنے ضمیر کو سلائے رکھنے کی کوشش کے طور پر قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کے بجائے خاموشی اختیار کیے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس لیے ایک کمزور بنا دیے گئے عالمی ادارے کے پلیٹ فارم سے اٹھنے والی یہ آواز ایک توانا آواز ہے۔ اس کے پیچھے جمہوری اور انسانی اقدار کی طاقت ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف بھی انہی جمہوری اور انسانی اقدار سے کشید کیے گئے بین الاقوامی قوانین کی محافظ ہے اور عالمی سطح پر فراہمی انصاف کی ذمہ دار بھی۔ اس ناطے اپنے ضمیر کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیر کے سامنے جوابدہ بھی۔
مگر اہم بات یہ ہے کہ بین لاقوامی عدالت انصاف تو اس دوران اپنا کام شروع کر دے گی۔ اس میں قرارداد کی حمایت کی صورت آنے والے 87 سائلین اس دوران کیا کریں گے۔ کیا یہ کافی ہے کہ انہوں نے ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دے دیا۔ ہر گز نہیں۔
سفارتی محاذ پر بدلتے ہوئے حقائق کے تناظر میں بہت کچھ کرنے کا موقع فراہم ہورہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک کو یہ سائلین اپنی اسرائیلی مصنوعات کی درآمدات اور براہ راست یا بالواسطہ اسرائیل میں اپنی سرمایہ کاری کا از سر نو جائزہ لے سکتے ہیں۔ نارملائزیشن کے سلسلے میں کچھ اقدامات کو روک سکتے ہیں تاکہ بین الاقوامی عدالت انصاف بھی محسوس کر سکے کہ سائلین سنجیدہ ہیں اور اسرائیلی قبضہ ناجائز بھی ہے اور ظالمانہ بھی۔
٭٭٭