سیاستمضامین

شری سبرتو رائے کا انتقالاک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

پروفیسر اخترالواسع

۱۵ نومبر ۲۰۲۳ کو ہمارے بیچ سے ایک ایسی شخصیت ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی جو سچے معنوں میں کرم یوگی تھا۔ جو ۱۹۴۸ میں بہارکے ارریہ میں پیدا ہوا اور ممبئی کے ایک اسپتال میں جس نے آخری سانسیں لی اور جمعرات ۱۶ نومبر کو لکھنؤ جو اس کی کرم بھومی تھا وہاں پر بیکنٹھ دھام میں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں اور عناصر خمسہ میں جس کا جسد خاکی ہمیشہ کے لیے تحلیل ہوگیا۔ اس شخصیت کا نام شری سبرتو رائے تھا جنھوں نے اگر چہ عمر رواں کی ۷۵ منزلیں ہی سر کیں لیکن اس بیچ میں وہ دیر پا نقش زندگی کے مختلف میدانوں میں چھوڑے کہ انھیں کبھی آسانی سے بھلایا نہ جا سکے گا۔ زندگی کا ایسا کون سا شعبہ تھا جس میں عزت و اکرام کے ساتھ انھوں نے جگہ نہ بنائی ہو۔ بنیادی طور پر وہ تاجر تھے اور انھوں نے گورکھپور میں صرف دو ہزار روپیے سے سہارا گروپ کی شروعات کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چٹ فنڈ ہو، ہوائی سفر کے لیے سہارا کی ایئر لائنس کی شروعات ہو، ہوٹلوں کا قیام ہو، خوبصورت تعمیرات کا سلسلہ ہو، فلموں ، کھیلوں بالخصوص کرکٹ کی سرپرستی ہو ، ان کا نام ہر جگہ مشہور ہوا۔ وہ بظاہر سیاست دان نہیں تھے لیکن سیاسی حلقوں میں ان کی رسائی اور رسوخ غیر معمولی تھا۔
باوجود اتنے بڑے تجارتی گھرانے کے سربراہ ہونے کے انھوں نے ہمیشہ اپنے کو سہارا شری ہونے کے باوجود سہارا گروپ کا ایک ورکر ہی سمجھا اور اپنی کمپنیوں میں کام کرنے والوں کو ہمیشہ ایک سہارا پریوار کا حصہ ہی جانا۔ملائم سنگھ ہوں یا امر سنگھ، اکھیلیش یادو ہوں یا راج ببر، نریش اگروال ہوں یا پرمود تیواری، عمار رضوی ہوں یا ابھیشیک مشرا، سب سے تعلق کے باوجود ان کی طبیعت کا انکسار ان کی اپنی پہچان ہے۔ یہ میں رسماً نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ واقعتاً میں نے انھیں ایسا ہی پایا۔ میری ان سے دو ایک ملاقاتیں ہی ہوئیں لیکن انھوں نے مجھے یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ میں اتنے بڑے آدمی سے مل رہا ہوں۔ میں نے انھیں دیکھ کر بخوبی یہ جانا کہ بلندیٔ نگاہ، دل نوازیٔ سخن اور پر سوزیٔ جاں کا کیا مطلب ہوتا ہے، وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں جن کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہوتے ہیں، جو فرش سے عرش تک کا سفر اپنے عزم و ارادے کی بنیاد پر طے کرتے ہیں۔
شری سبرتو رائے جنھیں ان کے تمام ہم منصب ہوں یا کارکنان یا پھر قریبی اعزہ و احباب، سہارا شری کے نام سے پکارتے تھے، کا ایک بڑا کام جدید ذرائع ابلاغ اور پرنٹ میڈیا سے ان کا لگاؤ تھا۔ انھوں نے سہارا سمے نامی اپنے ٹی وی چینل کو کسی ایک علاقے اور زبان تک مخصوص نہیں رکھا۔ اسی طرح ہندی دینک راشٹریہ سہارا کے فروغ و اشاعت میں بھی غیر معمولی دلچسپی دکھائی، لیکن ان سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جب اردو زبان وادب سے اردو والے بھی دوری بنانے لگےتھے، شری سبرتو رائے نے ہندی کے علاوہ اردو میں بھی روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو کی بنیاد رکھی اوردبستان دہلی و دبستان لکھنو کو ایک نئی روایت سے ہمکنار کیا۔ سوال صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سب سے بڑی بات یہ کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو کو پہلے ملٹی ایڈیشن اخبار ہونے کا اعزاز حاصل ہوااور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اپنی زینت اور طباعت، خبروں تک رسائی کی بناپر اسے کسی اردو والے کو اپنے ڈرائنگ روم میں دوسری زبانوں کے بڑے سے بڑے اخباروں کے ساتھ رکھنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ڈاکٹر عزیز برنی ہوں یا فیصل علی، جسیم محمد ہوں سب نے اپنے اپنے انداز سے روزنامہ راشٹر یہ سہارا اردو کو نئی بلندیوں تک پہنچایا اور اب عبد الماجد نظامی راشٹریہ سہارا اردو کے ذریعے اردو صحافت کے گیسوؤں کو سنوارنےمیں لگے ہوئے ہیں۔ سہارا شری نے صرف اردو کے روزنامہ کی صحافت ہی کی نہیں بلکہ ہفت روزہ اور ماہانہ صحافت کی بھی ایک زمانے میں خوب سرپرستی کی۔ یہ شروع کا وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر عزیز برنی سہارا شری سے جڑے ہوئے تھے۔
سہارا شری کی اس فراخ دلی اور اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انھوں نے جس طرح کام کیا او ر کرایا اس سے ایک بات تو یہ ثابت ہو ہی جاتی ہے کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہےاور ہر مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے شری سبرتو رائے کے اس اقدام سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اردو صحافت کی غیر منفعت بخش ہونے کا جو رونا روتے ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ بڑے تجارتی و صنعتی گھرانے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ ہم سب یہ تو مانتے ہیں کہ اردو کا کوئی مخصوص علاقہ نہیںاور وہ ایک پین انڈین زبان ہے لیکن اس کو واقعتاً اردو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے مختلف ایڈیشن نکال کر سہارا گروپ نے ہی ثابت کیا اور یہاں ایک بات کا اعتراف کرتے چلیں کہ بڑے تجارتی و صنعتی گھرانوں میں اس کے مالک کی مرضی اور منشا کے خلاف پتہ بھی نہیں ہلتا، ظاہر ہے کہ یہ شری سبرتو رائے کی بصیرت ہی تھی جس نے اردو کو اپنی مادری زبان نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے اتنے ایڈیشن نکلوانے کا فیصلہ کیا۔
سہارا پریوار کا اردو کے ساتھ یہی بہتر سلوک نہیں تھا کہ اس نے پرنٹ میڈیا میں اردو کی ایک پہچان بنائی اور سب سے پہلے بنائی بلکہ سہارا سمے اردو کے آغاز سے آج تک جدید ذرائع ابلاغ یا مین اسٹریم میڈیا میں لانے کا غیر معمولی کام بھی کیا۔ایسا نہیں کہ دوسرے اردو اخبار یا اردو چینل اس کام میں نہ لگے ہوں لیکن سہارا سمے نے جس متناسب اور متوازن انداز سے پروگرام پیش کیے ہیں، بغیر کسی تعصب یا تنگ نظری کے جس طرح مختلف موضوعات کو اپنے پروگراموں میں شامل کیا ہے، اس کی بات ہی الگ ہے۔
ہم سہارا شری شری سبرتو رائے کے انتقال پران کے خاندان، متعلقین، احباب اور تمام کارکنان سے تعزیت کرتے ہیں۔ انھوںنے اپنا مربی اور مہربان کھویا۔ ہندوستانی تجارت و صنعت ایک کرم یوگی سے محروم ہو گئی لیکن اردو صحافت اور جدید ذرائع ابلاغ نے اپنا ایک سچا خیر خواہ کھو دیا ہے۔ ایک ایسا شخص جس کی مادری زبان بنگالی تھی، جو ہندی بیلٹ میں پیدا ہوا، سر گرم عمل رہا، جس نے گورکھپور، لکھنو اور ممبئی کو فخر و مباہات کے نئے پہلو عطا کیے۔ جس نے اپنے مخیر رویے سے مختلف میدانوں میں کام کرنے والوں کو جس طرح نوازا وہ تو اسے یاد کرتے ہی رہیں گےلیکن ہم اردو والے ہر صبح راشٹریہ سہارا اردو کی آمد کے ساتھ ہی انھیں یاد کرتے رہیںگے۔ ان کی یاد اور دوبالا ہو جائے گی جب اردو سہارا سمے کے پروگرام ہمیں دیکھنے کو ملیں گے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس اسلامک اسٹڈیز ہیں)

a3w
a3w