مسعود ابدالی
اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوق (Isaac Herzog) نے ڈیووس کے عالمی اقتصادی فورم میں صاف صاف کہہ دیا کہ اسرائیل فی الحال امن بات چیت کے موڈ میں نہیں۔ قیدیوں کی رہائی اور حماس کے خاتمے سے پہلے جنگ بندی کی بات بھی نہ کی جائے۔ دوسرے روز صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے مبہم انداز میں کہا کہ سعودی عرب و اسرائیل کے سفارتی تعلقات غزہ جنگ کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسرائیلی صدر کی گفتگو سے پہلے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کہہ چکے تھے کہ ان کا ملک اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا خواہش مند تو ہے لیکن ہمارے مراسم فلسطینیوں کے حقوق سے مشروط ہیں، اور آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے بعد ہی ریاض، تل ابیب سے سفارتی تعلقات قائم کرے گا۔
اس سے پہلے اسرائیلی ارکانِ پارلیمان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو المعروف بی بی نے کہا کہ غزہ کی جنگ جلد ختم ہونے والی نہیں۔ یہ مہینہ دو مہینہ نہیں بلکہ بہت طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ ہمیں ایسے ’’وحشیوں‘‘کا سامنا ہے جنھیں خود اپنی جان کی پروا نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں بی بی یہاں تک کہہ گئے کہ جنگ 2025ء اور اس کے بعد تک بھی جاری رہ سکتی ہے۔
عام لوگوں کے ساتھ صحافی، اساتذہ، طبی عملہ، شعرا اور فنکار اسرائیلیوں کا خصوصی ہدف ہیں۔ چند روز پہلے مشہور خطاط، مصورہ اور شاعرہ برّہ بنتِ ابومحسن کو ڈرون نے نشانہ بنایا۔ حملے میں 31 سالہ برّہ اور ان کی والدہ جاں بحق ہوگئیں۔ برّہ کی ننھی بیٹی کا اپنی خالہ کے سوا اب دنیا میں کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اسی شام غزہ کی سب سے بڑی درسگاہ جامعہ اسریٰ کو اسرائیلی بمباروں نے ریت کا ڈھیر بنادیا۔ ویڈیو پر یہ منظر دیکھ کر صدر بائیڈن بہت ’’دکھی‘‘ ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے بلاثبوت دعویٰ کیا کہ جامعہ کو حماس فوجی اڈے کے طور پر استعمال کررہی تھی۔ اس ’’وضاحت‘‘ پر امریکی صدر کا دکھ ختم اور ضمیر مطمئن ہوگیا۔
خرچ کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے مہنگی جنگ ہے جس پر دسمبر تک اسرائیل 60 ارب ڈالر پھونک چکا ہے۔ ہلاک شدگان کی صحیح تعداد کے بارے میں درست اعدادوشمار کا حصول بہت مشکل ہے، کہ اسرائیل کی جانب سے لڑنے والے فوجیوں کی بڑی تعداد افریقی، دروز اور شامی نژاد گولانی پناہ گزینوں پر مشتمل ہے، جبکہ ساری دنیا سے اسرائیل کے حامی جنگجو بھی غزہ کا رخ کررہے ہیں۔ غیر اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت سرکاری اعدادوشمار کا حصہ نہیں۔ فلسطین کے صحافتی ذرائع اسرائیلی ہلاکتوں کو ہزاروں میں بیان کررہے ہیں۔ جنگ میں زخمی ہونے والوں میں سے اکثر کا معاملہ بہت خراب ہے اور بہت سوں کے اعضا کاٹے جارہے ہیں۔ عبرانی روزنامہ یدیعوت اخرنت (Yedioth Ahronoth) کا کہنا ہے کہ غزہ پر حملے کے آغاز سے 3 جنوری تک 12 ہزار اسرائیلی سپاہی اپاہج ہوچکے ہیں۔ اخبار کے مطابق یہ ایک بہت محتاط تخمینہ ہے، اس لیے کہ زخمی ہونے والے فوجیوں کی جانب سے معذوری کی درخواستوں کا حجم 20 ہزار سے تجاوز کرچکا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو کے داماد کیپٹن پیری آئرن بھی معذوروں میں شامل ہیں۔ کپتان صاحب کی ایک ٹانگ غزہ میں رہ گئی۔ فوج کے بحالی مراکز (Rehabilitation Centers) میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 60 ہزار ہے۔
اسرائیلی فوج کی کُل تعداد، محفوط یا reserve دستے ملاکر 6 لاکھ 46 ہزار ہے۔ ان میں سے 12 ہزار کے اپاہج ہونے کا مطلب ہوا کہ 1.86 فیصد فوج اب لڑنے کے قابل نہیں۔ تین ماہ کی وحشیانہ بمباری سے جہاں غزہ کے ایک فیصد شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہیں اہلِ غزہ کی پُرعزم مزاحمت نے اسرائیل کی دو فیصد فوج ٹھکانے لگادی۔ جسمانی معذوری کے ساتھ غزہ سے واپس آنے والے فوجی نفسیاتی، دماغی اور اعصابی امراض میں بھی مبتلا ہورہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک فوجی نے اپنی خاتون دوست کے جسم میں سرکاری رائفل سے 24 گولیاں اتار دیں۔
یہی وجہ ہے کہ غزہ میں ڈیوٹی کا دورانیہ کم کیا جارہا ہے۔ غزہ سے پانچ ڈویژن فوج واپس بلانے کی خبر ہم اس سے پہلے ایک نشست میں دے چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے فوج کے ترجمان نائب امیرالبحر ڈینیل ہجاری نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حماس کی عسکری صلاحیت کو تباہ و برباد کردینے کا ہدف حاصل کرلیا گیا ہے، لہٰذا اب طاقت کے ’’بہت زیادہ‘‘ استعمال کی ضرورت نہیں۔ فوجی ترجمان نے کہا کہ 36ویں ڈویژن کو ’’تربیت اور آرام‘‘ کے لیے شمالی غزہ سے واپس بلالیا گیا ہے۔ دو پیادہ اور دو بکتربند بریگیڈ پر مشتمل یہ ڈویژن غاش یا ’جلال‘ کے نام سے مشہور ہے۔ غاش ڈویژن کی واپسی پر اسرائیل کے جنگجو عناصر سخت مشتعل ہیں۔ دائیں بازو کے رہنما اور حکمراں اتحاد کی عزمِ یہود پارٹی کے سربراہ اتامر بن گوئر نے فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’دشمن کے مضبوط ٹھکانوں سے اسرائیلی فوج کا انخلا ایک سنگین اور خطرناک غلطی ہے جس سے انسانی جانوں کا نقصان ہوگا‘‘۔ غیر جانب دار تجزیہ نگار اس لن ترانی کو دل کے بہلانے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔ یعنی اب اسرائیلی سپاہ میں تھکن کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔
اسرائیلی توقعات کے برخلاف وقت گزرنے کے ساتھ اہلِ غزہ کی عسکری استعداد بہتر ہوتی جارہی ہے۔ خان یونس اور شمالی غزہ میں اسرائیل کا مایہ ناز مرکاوا ٹینک ناکام ہوچکا ہے۔ مزاحمت کاروں نے 376 ٹینک تباہ یا ناکارہ کردیے ہیں جو کُل اسرائیلی ٹینکوں کے 40 فیصد کے قریب ہے۔ ناکارہ ہوجانے والے ٹینک اسرائیل کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں کہ انھیں اگر وہیں چھوڑ دیا جائے تو بچے ان پر چڑھ کر تصویریں کھنچوائیں گے، جبکہ واپس لانے کے لیے انھیں بھاری ٹرک بھیجنے پڑتے ہیں جنہیں مزاحمت کار اپنی غول رائفل اور یاسین راکٹ سے نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسرائیلی ہلاکتوں کا بڑا حصہ ناکارہ ٹینک ڈھونے والے عملے پر مشتمل ہے جو یومیہ اجرت کے پناہ گزین مزدور ہیں۔
مشکلات، نقصانات اور ہلاکتوں کے باوجود جنگ بندی سے دوٹوک انکار کی بنیادی وجہ اسرائیلی اتحادیوں کی غیر مشروط یعنی ’لاممنوعہ و لا مقطوعہ‘ حمایت و مدد ہے۔ نقصان سے بچنے کے لیے پیادہ فوج کا ایک حصہ پیچھے ہٹاکر گولہ باری تیز اور ہلاکت خیز کردی گئی ہے۔ اسرائیلی ٹینک اب اس شدت سے گولے برسا رہے ہیں کہ امریکہ سے آنے والی 14000 گولے فی ماہ کمک کافی نہیں اور اضافی ضرورت پوری کرنے کے لیے جرمنی نے 120 ملی میٹر کے دس ہزار گولے اسرائیل بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ گولوں کی تیاری میں وقت لگے گا جبکہ اسرائیل کی ضرورت ہنگامی نوعیت کی ہے، اس لیے جرمن فوج کے پاس موجود گولوں کے ذخیرے سے پہلی کھیپ فوری طور پر روانہ کی جارہی ہے۔
مالی مدد اور اسلحے کے انبار کے ساتھ اسرائیل کے لیے سیاسی و سفارتی حمایت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ غزہ میں انسانی جانوں کے زیاں پر ’’تشویش‘‘ کا اظہار تو ہے لیکن جنگ بندی کی مخالفت میں امریکہ اور یورپ اسرائیل ہی کی زبان بول رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے جرمن وزیرخارجہ جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے بولیں کہ ’’اگر حماس ہتھیار ڈال دے تو جنگ آج ہی بند ہوسکتی ہے‘‘۔ اسی تجویز کو یورپی یونین نے دہرایا اور 18 جنوری کو یورپی پارلیمان کی قرارداد میں اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ غزہ میں زیر حراست تمام افراد کی رہائی اور حماس کے مکمل خاتمے کے بعد ہی جنگ بند ہوگی۔ یہ تحریک 131 کے مقابلے میں 312ووٹوں سے منظور کرلی گئی، جبکہ 72ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
جہاں امریکہ اور یورپ کی غیر مشروط و مسلسل حمایت، وزیراعظم نیتن یاہو المعروف بی بی کے لیے تقویت کا باعث ہے، وہیں داخلی محاذ پر دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ کچھ دن پہلے اسرائیلی خفیہ ایجنسی شین بیت (Shen Bet)کے سابق سربراہ عمی ایالن (Ami Ayalon) نے کہا تھا کہ فوجی آپریشن کے ذریعے اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی ممکن نہیں۔ غذائی قلت اور وبائی امراض کے تناظر میں اسرائیلی قیدیوں کی فوری وطن واپسی ضروری ہے۔ جناب ایالن کا خیال ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں بند تمام کے تمام افراد کی آزادی کے عوض اپنے قیدیوں کی رہائی نقصان کا سودا نہیں۔ جنگی کابینہ کے رکن اور اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ جنرل گادی آئزنکوٹ (Gadi Eisenkot) نے اسرائیلی ٹیلی ویژن کے عبرانی چینل 13 پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’قیدیوں کو چھڑانے کے لیے فوجی آپریشن ہمارے زیرحراست افراد کے لیے موت کا پیغام ثابت ہوگا۔ فوجی قوت کے ذریعے جتنا دبائو ڈالا جاسکتا تھا، ڈال دیا گیا۔ یہ حکمتِ عملی ناکام ہوچکی اور اب سفارت کاری کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ جنگ کے دوران جنرل صاحب کا ایک جوان بیٹا شمالی غزہ میں ہلاک ہوچکا ہے۔
معاملہ صرف سابق جرنیلوں تک محدود نہیں۔ نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے چار کمانڈروں نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر اخبار کے نمائندے سے کہا کہ عسکری قوت کے زور پر قیدیوں کی بازیابی آسان نہیں۔ یہ صرف سفارتی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ 100دن بعد بھی اسرائیلی فوج غزہ پر کنٹرول میں ناکام رہی ہے۔ حماس کے خاتمے اور قیدیوں کے رہائی کے اہداف کو ایک ساتھ حاصل کرنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔
محاذِ جنگ سے تابوتوں اور زخمیوں کی آمد کے ساتھ سفید چھڑیاں لیے نابینا نوجوان، بیساکھیوں پر گھسٹتے اور وہیل چیئر پر بیٹھے کڑیل جوان چوکوں اور چوراہوں پر نظر آرہے ہیں۔ یہودیوں کے ہاں ماتم و گریہ وزاری ایک مذہبی رسم ہے۔ ہلاک شدگان اور غزہ میں زیر حراست قیدیوں کی یاد تازہ رکھنے اور ان کی یاد میں آنسو بہانے کے لیے کئی جگہ یادگاریں قائم کردی گئی ہیں جنھیں دیوارِ گریہ کے حوالے سے ماتم کدے یا Kotel کہا جاتا ہے۔ ان مقامات پر ننھے یتیم بچے گود میں لیے جوان بیوائوں اور ضعیف والدین کی آہ وبکا کے مناظر عام ہیں۔
بی بی اور ان کے انتہا پسند رفقا ابھی تک ’’وحشی حماس کو کچل دو‘‘ کے نعرے لگارہے ہیں۔ سرکاری میڈیا قومی ترانے اور فوجی دھنیں بجاکر جنگی ماحول بنائے ہوئے ہے، لیکن جگہ جگہ قائم یادگاروں اور ماتم کدوں سے ابھرتے بین سے ماحول سوگوار ہورہا ہے۔ غزہ میں قید افراد کے لواحقین کی جانب سے رہائی کے لیے بات چیت کے مطالبے میں شدت آگئی ہے۔ سیکڑوں متاثرہ خاندان بی بی کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر خیمہ زن ہیں۔ (سلسلہ صفحہ ۷)
اس حوالے سے اسرائیل کی آن لائن خبر رساں ایجنسی Tazpit Press Service یا TPSنے 18 جنوری کو انکشاف کیا کہ قائدِ حزبِ اختلاف یائر لیپڈ (Yair Lapid)نے وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد اسپیکر کے پاس جمع کرادی ہے۔ (سلسلہ صفحہ ۷)
حکومت پر عائد کی جانے والی فردِ جرم میں جناب لیپڈ نے کہا کہ ایک دن پہلے اکثریت کے بل پر منظور کیے جانے والے ساڑھے 14 ارب کے بجٹ میں فوج کے لیے ڈھائی ارب ڈالر رکھے گئے ہیں
جس کا بڑا حصہ مارے جانے والے فوجیوں کے اہلِ خانہ اور معذور ہونے والوں کی بحالی پر خرچ کیا جائے گا۔ قائد حزبِ اختلاف نے الزام لگایا کہ بقیہ رقم اُن منصوبوں پر خرچ کی جارہی ہے جن سے حکمراں اتحاد کے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ اپنے بیان میں جناب لیپڈ نے وزرا کی آپس کی چپقلش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف ہمارے بچے اور بچیاں مارے جارہے ہیں تو دوسری جانب ہنگامی حالات میں بھی وزرا اپنے ذاتی ایجنڈے کے حصول میں مصروف ہیں، چنانچہ اس ٹولے کا حکومت میں رہنا ملکی مفاد میں نہیں۔ ٹی پی ایس کے مطابق حزبِ اختلاف کی لیبر پارٹی نے بھی عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کا اعلان کیا ہے۔
گفتگو ختم کرنے سے پہلے ایک شرمناک بلکہ ڈھٹائی پر مبنی مکالمہ پیش خدمت ہے۔ یہ گفتگو ڈیووس اقتصادی فورم میں ہزاروں ماہرین کے سامنے ہوئی:
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار ٹامس فریڈمین: غزہ جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں میں ناقابلِ یقین عدم مساوات کے پیش نظر میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہودیوں کی زندگیاں فلسطینیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کی زندگیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں؟
امریکی وزیرخارجہ: ہرگز نہیں۔ میرے لیے اور ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے، وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ معصوم خواتین اور بچوں کی تکلیف دیکھ کر میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے؟
تم نیا زخم لگائو تمہیں اس سے کیا ہے
بھرنے والے ہیں ابھی زخم پرانے کتنے