سوشیل میڈیامشرق وسطیٰ
ٹرینڈنگ

سعودی عرب کی تاریخ میں ایک ایسا قصاص جس نے پوری دنیا کو رُلادیا (ویڈیو)

پورا سعودی عرب بول پڑا کہ معاف کیا جانا چاہئے،شریعت نے دیت اور معافی کا آپشن بھی تو رکھا ہے، لیکن مقتول کے ورثاء نے نہ تو معاف کیا اور نہ دیت پر راضی ہوئے۔

جدہ: نوجوان محمد بن مرسل سعودی عرب کے شہر نجران کے رہنے والے تھے معمولی سی تلخی کے باعث ان کے ہاتھ سے ان کے ایک خاندانی بھائی کا قتل ہوگیا ،ان کو جیل ہوگئی ،جیل میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد عدالت نے قصاص میں انکی گردن اڑانے کا حکم سنا دیا۔

متعلقہ خبریں
اردو اکیڈمی جدہ کا گیارہواں سہ ماہی پروگرام شاندار انداز میں منعقد، تمثیلی مشاعرہ اور طلبہ کی پذیرائی
سعودی عرب میں میڈیکل و انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے مواقع پر IIPA کا رہنمائی سیشن
ادبی فورم ریاض کا مشاعرہ بہ یاد تابش مہدی مرحوم
ڈاکٹر سید انور خورشید کو پریواسی بھارتیہ سمان 2025 ایوارڈ ملنےپر تہنیتی جلسہ
انجینئرنگ کالج میڑچل میں طالبات کی خفیہ فلمبندی کیس میں دو گرفتار

البتہ شرعی طور پر مقتول کے ورثاء کے پاس دیت لینے یا فی سبیل اللہ معاف کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔محمد مرسل کے قبیلے آل رزق کے بچوں ،بزرگوں اور نوجوانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مقتول کے قبیلہ آل صنیج کے سامنے معافی کی درخواست رکھی جائے۔

 وہ چاہیں تو دیت لیں وہ چاہیں تو معاف کریں یہ درخواست رکھنے کا جو انداز تھا یہ اتنا منفرد تھا،یہ اتنی عاجزی اور فریاد لئے تھا کہ پورے عرب میڈیا کا یہ موضوع بن گیا،محمد بن مرسل کے قبیلے کے چھوٹے بڑے بزرگ بچے سب مقتول کے دروازے پر پہنچ گیے۔

مقتول کے ورثاء کو بلایا گیا،ان کے سامنے قبیلے کے سرداروں اور شیخوں نے جوانوں اور بچوں نے اپنی عقالیں،چادریں، جبے اتار کر مقتول کے ورثاء کے قدموں میں رکھے،عزت اور فخر سمجھی جانے والی چیزیں اور اشیاء اتار کر مقتول کی چوکھٹ میں رکھ  دیئے۔

اپنی چادروں سے گھٹنوں کو باندھ کر زمین پر لیٹ گئے،اپنے سروں پر مٹی ڈالے،شاعروں نے معافی پر قصیدے پڑھے، مقتول کے ننھے بچے نے یوں معافی کی استدعا کی کہ جگر کٹ جائے، جو اور جتنی چاہیے دیت کی پیش کش کی گئی۔

پورا سعودی عرب بول پڑا کہ معاف کیا جانا چاہئے،شریعت نے دیت اور معافی کا آپشن بھی تو رکھا ہے، لیکن مقتول کے ورثاء نے نہ تو معاف کیا اور نہ دیت پر راضی ہوئے۔

 چنانچہ تین دن پہلے بیس ستمبر کو نوجوان محمد بن مرسل کی گردن قصاص میں اڑا دی گئی، یہ پہلا قاتل تھا جس کیلئے پورے ملک میں مغفرت کی دعائیں ہو رہی ہیں، لوگ ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف قانون اپنی جگہ کتنا مضبوط ہے کہ سب کچھ کے باوجود نافذ ہوا –