طنز و مزاحمضامین

جب پانی میں ہمارے بھی جہاز چلا کرتے تھے

حمید عادل

آپ کو یہ جان کر شاید تعجب ہوگا کہ ہم بھی کبھی بچے تھے ، تھے تو چھوٹے لیکن بڑے بڑے خواب دیکھا کرتے تھے ۔ ہم اکثر سوچا کرتے کہ بڑے ہوکرہم آسماں سے چاند نہیں تو تارے ضرور توڑ لائیں گے۔ آسمان سے تارے تو نہیں توڑ پائے لیکن گھرکو بچوں کی ’’کہکشاں ‘‘سے سجاضرور دیا۔
بچپن کا تصورذہن میں آتے ہی کھیل کود، شرارتیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑانا جھگڑنا یاد آجاتا ہے لیکن ہمارا بچپن ذرا ہٹ کے تھااورہم اتنے ہٹے ہوئے تھے کہ دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنا ہمیں قطعی گوارانہ تھا ، ہم کھیلتے بھی تو خودسے، لڑتے بھی تو خود سے۔دو تین سال کے تھے تو غذا کے طورپر دال چاول اس شوق سے کھایا کرتے کہ گوشت کی حسرت ہی رہ جاتی کہ وہ دل میں نہیں تو ہمارے پیٹ میں جگہ بنائے۔ جب دوسرے بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے تو ہم اپنے مکان کے چبوترے پر کسی عظیم مفکر کی طرح بیٹھ کر سوچوں میں گم رہتے لیکن کیا سوچتے ، اب سوچنے پر بھی یاد نہیںآتا لیکن اتنا تھا کہ کچھ نہ کچھ سوچتے ضرور تھے۔ دراصل ہم بچپن ہی سے بے انتہا شریف النفس واقع ہوئے ہیں بلکہ یہ کہیں تو بیجا نہ ہوگا کہ ہم ’’ شریف آف رائچور ‘‘ تھے۔ جی ہاں! ہماری پیدائش رائچور کی ہے ۔ والد صاحب نظام آرمی میں فوجی تھے، پھر جب ریاست حیدرآباد ، ہندوستان میں ضم ہوئی تو انہوں نے انڈین آرمی جوائن کرلی اور بعد ازاںبینک سے وابستہ ہوگئے۔ ابو کی ملازمت کی خاطر ہی ہمیں رائچور کا رخ کرنا پڑا تھا۔ انہوںنے فوج کی ملازمت تو ترک کردی تھی لیکن ان کے ہاتھ سنی دیول کے ڈھائی کیلو کے ہاتھ سے زیادہ وزنی تھے جن کے پڑنے کے بعد آدمی اٹھتا نہیں اٹھ جاتا تھا۔ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ ہم نے ابوکی بہت مار کھائی، اس لیے اب زندگی کی وقتاً فوقتاً پڑنے والی ماریں ہم پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ دراصل ہمارا بچپن گرتے پڑتے گزرا اورجب جب ہم گرا کرتے ہمارے گھٹنے کی کٹوریاں لہولہان ہو جاتیں اور ابو کو اس بات پر غصہ آتا کہ ایک فوجی کا بیٹا جگہ جگہ گرکر ان کا نام مٹی میں ملا رہا ہے ۔ چنانچہ وہ ہمیں اتنا پیٹتے کہ ہماری پیٹھ پر خونی پنجے نقش ہوکر رہ جاتے ۔ جب والد محترم کا غصہ ٹھنڈا پڑ تا تو ہم ان کی طرف کچھ ایسی نظروں سے دیکھتے جیسے کہہ رہے ہوں ’’ تمہیں نے درد دیا ہے تمہیں دوا دینا‘‘ اورپھر والد صاحب گرم گرم پانی یا پھر اینٹ سے ہماری پیٹھ سینکا کرتے۔قصہ مختصر یہ کہ نہ ہم نے گرنا چھوڑا اور نہ ابو نے ہمیں مارنا چھوڑا۔ دراصل بار باروالد صاحب کی مار کھانے کے فیوض و برکات ہی ہیں کہ ہم آج سنبھل سنبھل کر چلنے کے قابل ہوسکے ہیں،ورنہ ہم تواتنی بار گرتے رہے کہ خود اپنی نظروں میں گر چکے تھے۔جیسا کہ ہم بتاچکے ہیں کہ ہم کھیل کود سے کوسوں دور تھے اور چبوترے پر کسی امن پسندراجہ کی طرح بیٹھ کر پرجا ، یعنی دیگر بچوں کی شرارتیں اور مستیاں ملاحظہ فرمایا کرتے تھے۔
ہماری ’’ احتیاط علی محتاط‘‘ والی شخصیت کے باوجود ہم پرایک لڑکے نے یہ سنگین الزام عائد کردیا تھا کہ ہم نے اس کی تیل سے بھری بوتل پھوڑ دی۔ چنانچہ لڑکے کی ماں ہماری والدہ سے لڑنے آگئیں لیکن والدہ صاحبہ کو ہماری تائید میں کچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہ پڑی کیونکہ سارے محلے نے ہمارے حق میں یہ گواہی دے ڈالی کہ یہ وہ لڑکا ہے جو آج تک چبوترے سے نیچے نہیں اترا تو وہ آپ کے لڑکے کا تیل ، کیا خاک ، خاک میں ملائے گا؟ سارے محلے کی گواہی کا اثر یہ ہوا کہ وہ خاتون اپنا سا منہ لے کر لوٹ گئیں ۔آخری وقت تک ہمارے والدین کو یہی پتا تھاکہ ہم نے اس لڑکے کی بوتل نہیں پھوڑی لیکن راز کی بات بتائیں، دراصل وہ بوتل ہم ہی نے پھوڑی تھی۔ ہم بھی کیا کرتے، اس لڑکے نے ہمیں خواہ مخواہ پتھر پھینک کر مارا تھا ۔فوجی کے بیٹے تھے، جو ہمیں چھیڑے ہم اسے بھلا کیسے چھوڑتے، سو ہم چبوترے سے نیچے اترے اور اینگری ینگ مین بن کر اس پرایک زور دار گھونسہ رسید کرکے دوبارہ چبوترے پر جا بیٹھے ،اس کی بوتل کا ٹوٹنا دراصل ہمارے گھونسے ہی کا نتیجہ تھا! یوں تو ہم سنجیدہ طبیعت کے حامل ہیں لیکن بچپن ہی سے ہمارے اندر ’’ چلبل پانڈے‘‘ بیٹھا ہوا تھا۔
بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے ہیں
جب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے ہیں
پاؤں مار کے خود بارش کے پانی میں
اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے ہیں
آج قلم سے ہمیں جتنا پیار ہے اتنا ہمیں اپنے آپ سے بھی نہیں ،لیکن ایک وقت وہ بھی تھا جب قلم دیکھتے ہی ہمیں محسوس ہوتا جیسے کوئی ہمارا سر قلم کرنے پر آمادہ ہے ۔ جی ہاں! ہمارا دل پڑھائی میں قطعی نہیں لگتا، گھر سے اسکول کے لیے ہم بستہ لے کر تونکلتے لیکن کسی ایسی جگہ جاکربستے جہاں کوئی آتا جاتا نہ ہواور جب ہم دیکھتے کہ اسکولی بچے مدرسے سے گھر کی طرف لوٹ رہے ہیں تو ہم گوشہ نشین تر ک کرکے گھر کی راہ لیتے، لیکن ایک دن ہماری چوری پکڑی گئی ۔ دراصل ایک مخبر نے یہ خبر ہمارے والد تک پہنچا دی تھی کہ ہم اسکول کی بجائے یہاں وہاں وقت گزارا کر تے ہیں،پھر کیا تھا ہمارے والد کا فولادی پنجہ تھا اور ہماری نازک پیٹھ۔
وقت اور حالات کی بدولت آج ہم سکڑ کر رہ گئے ہیں ورنہ ہم بچپن میں خاصے فربہ اور خوبصورت تھے۔ اب آپ یہ نہ کہیں کہ گدھا بھی بچپن میں خوبصورت ہوتا ہے، اگر آپ خوبصورت تھے توکونسی حیرت کی بات ہے ۔ ایسی بات نہیں ہے ہم آج بھی اسمارٹ ہیں، شاید اس لیے کہ ہم گدھے نہیں ہے،پھر بھی جنہیں شک ہو اسی کالم میں موجودہماری تصویر ملاحظہ فرمائیں۔
ہمیں بچپن سے کوئی بیر نہ تھا لیکن جب ہم دیکھتے کہ سائرہ آنٹی ( سائرہ بانو)معصوم اور شرارتی اداؤں کے ساتھ کھلے میدان میں ٹھمکتی پھررہی ہیں اور جھاڑیوں سے جھولتے ہوئے ،ان سے لپٹتے ہوئے گنگنارہی ہیں :
جاجا جا میرے بچپن، کہیں جاکے چھپ ناداں
یہ سفر ہے اب مشکل،آنے کو ہے طوفان، جاجاجا میرے بچپن کہیں جا کے چھپ ناداں
تو ہم سمجھ نہیں پاتے کہ آخر بچپن میں کیا خرابی ہے اور وہ اسے اس طرح بھگانے پرکیوں آمادہ ہیں۔ چونکہ وہ ہم سے عمر میں خاصی بڑی تھیں، اس لیے سوچتے کہ وہ کہہ رہی ہیں تو سچ ہی کہہ رہی ہوں گی اور ہم خود بھی مذکورہ نغمہ بے ساختہ گنگنا اٹھتے۔ کچھ اور بڑے ہوئے تو موسمی آنٹی( موسمی چٹرجی) کو دیکھا ،ہمیں وہ بھی بچپن سے خاصی ناراض نظر آئیں،ان کا فرمانا تھا:
میرے بچپن تو جا، جا جوانی کو لے جا، جا وے جا تینو رب دا واسطہ،جا وے جا تینو رب دا واسطہ
اتفاق سے وہ بھی کھلے میدان میں کھلی زلفوں کے ساتھ اٹھلاتے اور بل کھاتے ایسے پھر رہی تھیں کہ کبیر بیدی ہی کیا ہمارا بھی ان پر دل آگیا ،جی ہاں! ’’تھا بچپن بڑا عاشقانہ ہمارا‘‘حالانکہ اس وقت ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ دل دینا اور دل لینا کسے کہتے ہیں ،لیکن جب ہم بڑے ہوئے تو پتا چلا کہ جوانی تو دیوانی ہے اور بچپن ہی سیانا ہوتا ہے ۔وہ اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ بغض، کینہ ، حسد جیسے ناپاک جذبات کے ساتھ جینا عقلمندی نہیں ہے ۔ہم نے بچپن کو نہیں چھوڑا بلکہ بچپن نے ہمیں چھوڑدیا اور ہم جوان ہوئے تو ہمیں یہ احساس شدت سے ہونے لگا کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے ،اگر عورت پر ہاتھ اٹھائے تو ظالم ، عورت سے پٹ جائے تو بزدل، عورت کو کسی کے ساتھ دیکھ کر لڑائی کرے تو غصے کا تیز، چپ رہے تو بے غیرت، گھر سے باہر رہے تو آوارہ، گھر میں رہے تو ناکارہ، بچوں کو ڈانٹے تو بے رحم نہ ڈانٹے تو لاپروا، عورت کی نوکری سے روکے تو شکی مزاج نہ روکے تو بیوی کی کمائی کھانے والا ، ماں کی مانے تو ماں کا چمچہ، بیوی کی سنے تو جورو کا غلام۔
اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں زمانے کے مطابق انسانی برانڈ بھیجی ہے ۔ آج کمپیوٹر کا دور ہے ، سو بچے بھی کمپیوٹر دماغ کے حامل ہیں۔جب ہم دنیا میں آئے تو غالباً ٹائپ رائٹر تھا، اس وقت درخت سے کوئی پتا بھی جھڑ کر ہماری کھوپڑی پر گرتا تو ہم گھبرا جاتے تھے کہ نجانے کونسی آفت ہم پر نازل ہوگئی ہے۔ جب کہ آج ہماری ڈیڑھ سالہ نواسی کی بیباکی کا یہ عالم ہے کہ وہ گوندھے ہوئے آٹے کی تھوڑی سی مقدارکو اپنی انگلیوں میں پکڑ کر ’’ بو‘‘ یعنی کسی خطرناک کیڑے کے طور پر پیش کرکے ہمیں نہ صرف ڈراتی پھرتی ہے بلکہ ہمیں ادھر ادھر بھاگتا پھرتا دیکھ کر محظوظ بھی ہوتی ہے ۔بچپن میں ہمیں کھانے کے بعد خود اپنا منہ پوچھنے کی توفیق نہیں ہوتی تھی اور آج ہماری نواسی کھانے کے بعد اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے ہمارا منہ پوچھتی ہے ، ایسے جیسے وہ ہماری ماں ہو۔ ہم کھارہے ہوں تو رکابی میں سالن ڈالتی ہے کھانا ڈالتی ہے ،کھانے کے بعد رکابی لے جاکر کچن میں رکھتی ہے ۔بچپن میں خود ہمیں اپنے کپڑوں کا ہوش نہیں تھالیکن آج ہماری نواسی جب بھی ہمیں شرٹ کے بغیر دیکھتی ہے تو منہ پر ایک ادا سے ہاتھ رکھ کر کہتی ہے ’’ آوا…شیم شیم‘‘ہم ڈیڑھ سال کی عمر میں خود اپنے ہاتھ پیر نہیں دھو سکتے تھے تو دوسروں کے پیر کیا دھلاتے لیکن اقرا جب ہم وضو کررہے ہوں تو ہمارے پیر دھوتی ہے ۔ہمیں چارپانچ سال کی عمر تک بھی پیسے کیا بلا ہے معلوم نہ تھا لیکن آج جب بھی بازار کا ذکر نکلتا ہے، اقراء اپنی انگلیوں کے مخصوص اشارے سے ’’ پیشے پیشے‘‘ ( پیسے پیسے) کرتی ہے ۔
ہمیں ابتدائی بچپن میں تو پڑھائی کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن پھر نجانے کہاں سے کسی قلم کار کی روح ہمارے اندر سما گئی ۔ ہمیں لکھنے پڑھنے کا اتنا شوق ہوگیا کہ لوگوں نے ہمیں ’’ کتابی کیڑے‘‘ کے لقب سے نوازدیا۔جہاں کوئی کتاب نظر آتی، ہم اسے لپک کرچاٹے بغیر نہیں رہتے۔ہم نے نہ صرف معاشی بلکہ سماجی، کھیل کود اور سیاسی حالات پر بھی نظر رکھنی شروع کردی تھی۔ ہم خود تو شباب کو نہیں پہنچے تھے لیکن ہمارا یہ شوق شباب کو ضرورپہنچ گیا تھا۔ چنانچہ لائبریری میں جاکر اہم خبروں کو نوٹ کرتے اور پھر اس پر اپنے بچکانہ تبصرے کربیٹھتے۔ ہمارے اسی جنون کی بدولت ہمیں بڑے بوڑھوں کی ڈانٹ سننی پڑتی کہ بچے ہوکر تم نے بڑوں کا شوق پال رکھا ہے ، اگر یہ شوق تمہارے اندراسی طرح برقرار رہا تو پھر میاں تم بہت جلد بوڑھے ہوجاؤگے ۔ ہم سے لکھنے پڑھنے کا شوق تو نہ چھوٹا البتہ ہم بچپن سے سیدھے بوڑھاپے میں داخل ہوگئے۔
ہمارے استاد ہمیں کہا کرتے تھے کہ تم اپنے اندر اپنے بچپن کو کبھی مرنے نہ دینا ، اس طرح تم بوڑھے نہیں ہوگے۔ اگر تم اپنے بچپن کو اپنے اندر سنبھال کر رکھنے میں ناکام ہوگئے تو پھر تمہیں بوڑھا ہونے سے کوئی نہ روک پائے گا ۔
میرا بچپن میرے بچپن کی یادیں
دادی کی لوریاں اور سردی کی راتیں
ہوجاتا ہوں جب میں جو اک دم اکیلا
تو تب یاد آتا ہے بچپن کا میلا
ہمیںجوانی کی رنگینیاں چھوکر بھی نہیں گزریں لیکن ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہماری جوانی کی کوئی کہانی ضرور ہے، کیونکہ ہم نے منوج انکل سے سن رکھا تھا کہ وہ جوانی ، جوانی نہیں جس کی کوئی کہانی نہ ہو:
سنبھال کے رکھی ہیں تیری یادیں
جیسے بچپن کی عیدی ہو میری
آج ہم ہزاروں کماتے ہیں لیکن ہمیں بچپن میں پانچ دس پیسے جو عیدی ملا کرتی تھی وہ ہزاروں روپیوں پر بھاری معلوم ہوتی ہے۔ہمارا یہ احساس ہے کہ انسانی زندگی کا سب سے پیارا دور ، بچپن ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ بچپن ،پچپن سال کی عمر میں دوبارہ لوٹ آتا ہے ،بس شرط یہ ہے کہ انسان اس عمر کو پہنچے۔ہمارا یہ احساس ہے کہ بچپن میں آدمی جتنا امیر ہوتا ہے ، اتنا زندگی کے کسی حصے میں نہیں ہوتا، کسی شاعر نے بچپن کی امیری سے متعلق کیاخوب کہا ہے :
بچپن کی وہ امیری نہ جانے کہاں چلی گئی
جب پانی میں ہمارے بھی جہاز چلا کرتے تھے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰