جمہوری قبا کے یہ راہزنکیا وطن کو غوطہ زَن کرکے ہی دم لینگے؟
ڈکٹیٹر شپ اور راج شاہی کے مقابلے میں جمہوری طرز حکومت و مملکت بحرحال قابل ترجیح مانی گئی ہے۔اس بابت ایک اہم تذکرہ ابتداً ہی ضروری اورمناسب وَمفیدہے۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ عوامی رائے کی اہمیت اور اس بِنا پر بِنائے حکومت کا قیام اور تشکیل وَترویج وَ ترتیب کے تصور کو صحرائے عرب کے عالیشان‘ بین الاقوامی تصورات کے حامل مکرم وَمعظم و محترم صاحب انقلابؐنے دنیائے انسانیت کو عطا کیا ہے ۔اور نہ صرف عطا کیا بلکہ جنہوںؐ نے اور جنؐ کے عطا کردہ نظریات و تصورات نے عملی طور پر قائم کرکے نظیر قائم کردی ہے بلکہ رہتی دنیا تک ان تصورات و نظرات کو محکم و اٹل بنادیا ہے۔چنانچہ اُس زمانے کے دو واحد سوپر پاور مملکت۔۔ فارس وَ رُوم۔۔ کی مملکتوں کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ پھینکاگیا تھا؛نیز احترام انسانیت وَانسانی برابری و تکریم کا مقام و تصور عطا بھی کیاہے۔
ظفر عاقل
ڈکٹیٹر شپ اور راج شاہی کے مقابلے میں جمہوری طرز حکومت و مملکت بحرحال قابل ترجیح مانی گئی ہے۔اس بابت ایک اہم تذکرہ ابتداً ہی ضروری اورمناسب وَمفیدہے۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ عوامی رائے کی اہمیت اور اس بِنا پر بِنائے حکومت کا قیام اور تشکیل وَترویج وَ ترتیب کے تصور کو صحرائے عرب کے عالیشان‘ بین الاقوامی تصورات کے حامل مکرم وَمعظم و محترم صاحب انقلابؐنے دنیائے انسانیت کو عطا کیا ہے ۔اور نہ صرف عطا کیا بلکہ جنہوںؐ نے اور جنؐ کے عطا کردہ نظریات و تصورات نے عملی طور پر قائم کرکے نظیر قائم کردی ہے بلکہ رہتی دنیا تک ان تصورات و نظرات کو محکم و اٹل بنادیا ہے۔چنانچہ اُس زمانے کے دو واحد سوپر پاور مملکت۔۔ فارس وَ رُوم۔۔ کی مملکتوں کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ پھینکاگیا تھا؛نیز احترام انسانیت وَانسانی برابری و تکریم کا مقام و تصور عطا بھی کیاہے۔
ریگزارعرب کے یہ گلستانی عطا کردہ نظریات و تصورات دورِ حاضر اور دنیا بھر میں چیلنج بنے ہوئے ہیں!؛چنانچہ لرزہ بر اندام مخالف و طاغوتی طاقتیں اپنے وجود وَ بقا کے ہوا ہوجانے کے خدشوں کے پیش نظرزمین کے چَپّہ چَپّہ پر مخالفتوں اور ظاہر وپوشیدہ ریشہ دوانیوںمیں جٹی ہوئی ہیں۔دراں حالیکہ موجودہ زمانے میں مسلمان مقہور و ملزم و مجبور اور مادیت گزیدہ بن چکے ہیں ؛اور انتباہ دیے گئے بنی اسرائیل کی راہ پر سرپٹ دوڑے جارہے ہیں۔اور جن کے سربراہ اوراصحاب قیادت خونخوار بِلّی کے پنجوں میں سہمے چوہوں کی مانند اپنی عاقبت کے بگاڑنے میںجٹے ہیں۔خیر یہ تو ایک جملہ اضافی لیکن ضروری امر تھاجو بطور خاص انسانیت کی بقا وَبہتری کے لیے تیر با ہدف اہمیت رکھتا ہے؛اس لیے آغاز گفتگو میںبطور نگینہ آراستہ کیا گیاہے۔
جمہوریت اور اس کی بقا وَترویج و برقراری۔۔۔ آمریت وَ شہنشاہیت سے بہتر ہونے کے سبب پسندیدہ بھی ہے۔تاہم تنقید تو جمہوری طرز حکومت پر بھی کی جاتی ہے؛اور کی جانی بھی چاہیے کیونکہ بہتری کی چاہ بجائے خود بہتر ہوتی ہے۔تنقید جمہوریت میں1 کے فرق سے ۔۔49کے بالمقابل 51کی حکمرانی شامل ہے؛اور اس کاکرب وَکوفت قریب آدھے طبقے کو اُٹھانا پڑتا ہے؛مثلاً موجود پارلیمنٹ میں ایک تہائی عوامی تائید سے دو تہائی کی درگت بنائی جارہی ہے ؛اور بنائی گئی تربت میں اپوزیشن کو بے وزن وبدنام کرکے گلی کا نہ گھاٹ کا بنادیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں عوام کی تائیدکے حصول میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوپائے ؛اور یہ کارہائے نمایاں(!) کی انجام دہی میںحکم کا منتظر انتظامیہ اور لے پالک میڈیا ہی نہیں بلکہ وہ اعلیٰ خود مختار اور غیر جانبدار دستوری ادارے اور ایجنسیاں بھی گلے میں پٹہ ڈالے ممد و معاون اور کٹ پتلی بن جانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔چنانچہ تحریرپیش نظرکا محور بھی اسی طرز کے دو ایک اہم اداروں کے اعمال سیاہ ہی ہیں جن کی وجہ اور مددسے جمہوریت کو برباد اور آمریت کو آباد۔۔۔جمہوری راہ وَرُوپ کو اختیار کرکے کیا جارہا ہے ۔اور یہ رنگ ڈھنگ اور چال چلن ایک رنگ‘ایک روپ‘ایک زبان‘ایک تہذیب و تمدن نیز ایک شخص کی اجارہ داری کے قیام کے لیے ہے۔
مذکورہ یک رنگی اور ایک شخص کی اندھ بھکتی میں جمہور اور جمہوریت غرق کردی جائے تب سکوت وَخاموشی ایک جرم اور دیش پریم کی ضد کہلائے گی اور واضح رہے کہ یہ طور طریق غیر اخلاقی اور غیر انسانی اوصاف سے متصف ہوکر آوے کا آوا بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔اندھ بھکتوں کا محور اور ہدف تو کل کلاں مرکھپ جائے گا لیکن ملک و مملکت کی ہلاکت و تباہی کا مداوا کیوں کر اور کس طرح ممکن ہوسکے گا؛ اور اس تباہی اور گند کی نکاسی ایک نا معلوم لمبے عرصے تک ممکن نہ ہوسکے گی۔کیونکہ یہ جونک کہیں چمٹ جائے تب رام کے بعد شام کا نام لیا جائے گا؛یاد رہے کہ ایودھیا رتھ پر سوار لال قلعہ ہموار کیا گیا اور اب چوبیس کے لیے متھورا ‘واراناسی کا ٹیبل سجایا جارہا ہے؛دراں حالیکہ یہ سب راون رنگ دار مکھوٹوں کا بدل ہونگے؛ جس کو دیس کی دیس واسی کی ناواقف اور بھولی بہلائی گئی جنتا سمجھنے سے قاصر ہے۔
حزب اختلاف پر ۔۔چاہے علاقائی وریاستی ہو کہ قومی سطح کا ہو۔۔۔شب خون اور خونخوار حملوں سے کون واقف نہیں ہے جب کہ ایک بعددوجے کو اپنے پاپ پر پردہ ڈالنے کے لیے بھاجپا لانڈری کی ضرورت پڑتی جارہی ہے؛اور یہ سلسلہ ڈاکہ زنی دوہزار چَودھا سے چومُکھی جاری ہے۔غیر جانبدار اور آزاد وَخود مختار ایجنسیوں کے دائرہ کارکردگی کی قریب تمام تر حصار بندی کا نشانہ اپوزیشن کیوں بنائی جارہی ہے ؛ اور یہ ہاکا( جانوروں کو گھیر کرشکاری کی زد پر پہنچانے کی دوڑ دھوپ) اس وقت تک ہوتا رہتا ہے جب تک شکار خوف زدہ نڈھال اوربے بس ہوکر شکاری کی پناہ گاہ میں پہنچ نہیںجاتا ہے۔کیا اس طرح جمہوریت کی خدمت گزاری بلکہ وجود وَبقا ممکن ہے کہ حزب اختلاف کی ساری راہوں پر خارِتیز تر کی چادر بچھا کر ان کی چادر ہی کھینچ لی جائے!؟۔ملکی سطح کی واحد اپوزیشن پارٹی کو بدنام کرتے ہوئے کہا جائے کہ کانگریس مکت بھارت بنایا جائے(!) ؛یا بھاجپا صدر بہار میں اعلان عام کرتا پھرے کہ علاقائی و ریاستی پارٹیوں سے دیس کو نجات دی جائے گی۔اس طرح کی برائے نام اپوزیشن کا رواج توجمہوریت دشمن آمروں کے ملک روس اور چین میں ممکن ہے۔صد حیرت کہ بھارت جیسا عظیم الشان ملک کیوں خونخوار بھیڑیوں کی راہ کا راہی بن کر اپنی سنسکرتی کو دنیا بھر میں تباہ و برباداور بدنام کرسکتا ہے؛اور اس پر اندھ بھکت تالیاں پیٹتے ہیں اور ماباقی راون کے بھائی کنبھ کرن نیند کی مانند چُپ شاہ کابرت دھارن کربیٹھتی ہے۔
سب سے بد تر معاملہ سیدھے با
زو کی پارٹی بالا صاحب ٹھاکرے مہاراشٹرا کی قائم کردہ شیوسینا کا ہے جو خود اپنے تیروں سے کمان ہوگئی کیونکہ اچانک40MLAنے بھاجپا کی شرن لے لی اور 106کی بھاجپا نے 40باغی شیوسینکو کے ایکناتھ شنڈے کو چیف منسٹر بنا کر حکومت بنا لی ہے۔شیوسینا ادھو ٹھاکرے کا ناقابل معافی جرم اتنا ہی تھا کہ اس نے کانگریس اورشرد پوارکی NCP سے گٹھ بندن کرکے مہا اگھاڑی کی سرکار بنالی تھی اوربھاجپا کی اکڑ کو ٹھکانے لگا کر اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور کردیا تھا۔ڈھائی سال تک مہا اگھاڑی اقتدار اور منسٹری کے مزے لوٹنے اور ساری سرکاری سہولیات کی ڈکار لینے کے بعد شنڈے پیٹ مروڑ کا رونا روتے ہیں تب شک کیا واجبی نہیں ہے؛ یا پھر کسی پوشیدہ جبر کی بھٹّی میں یہ ممبران اسمبلی کا تندور سینکاگیا ہے ۔ MLA/MPعوامی نمائندہ ہوتا ضرور ہے لیکن اس کی جیت میں پارٹی‘قیادت اور فلسفہ کا عمل دخل ہوتا ہے۔چنانچہ شنڈے کو پارٹی فورم میں اپنی اکثریت جٹا کر پارٹی پر قبضہ کرنا چاہیے؛اس کے برعکس وہ ایک متعین مدت کے منتخب نمائندے ہونے کی بات کرکے کس طرح پارٹی پر قبضہ کرسکتے ہیں ۔جب کہ پارٹی قیادت کی جانب سے شنڈے گروپ کے 16 MLAکو نااہل قرار دینے کی درخواست ڈپٹی اسپیکر کو دیدی گئی؛اور سپریم کورٹ نے اس پر روک لگا دی ااور کیس عدالت کے زیر نگیں ہے۔الکشن کمیشن پر بھی سپریم کورٹ نے قدغن لگا دی کہ تادیر فیصلہ وہ شنڈے گروپ کو اصلی نہیں قرار دے سکتا ہے۔
دوسرا معاملہ جس پر الکشن کمیشن کو ادھو گروپ نے جانبدار کہا ہے وہ اندھیری ایسٹ کے ضمنی الکشن میں دونوں کو پارٹی سمبل اور نام استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔دراں حالیکہ شنڈے نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے؛جبکہ اسکے الائنس بھاجپا نے اور ادھو کی شیوسینا نے اپنے امیدواروں کااعلان کردیا ہے۔اسی طرح کا معاملہ پارٹی نام اور سمبل کا بھی ہے؛ادھوکی جانب سے الکشن کمیشن کو داخل کیے گئے پروپو زل شنڈے گروپ تک پہنچادیے گئے اور انہی نام اور نشان پر شنڈے نے دعویداری کردی ہے۔ادھو ٹھاکرے کے الزام میں دم نظر آتا ہے۔حاصل کلام یہ کہ غیر جانبدار اداروں پر جانبداری اور طرفداری کا الزام کا لگایا جانا اس کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔شیواجی پارک شیوسینا کی دسہرہ تقاریب کا تاریخی گراؤنڈ رہا ہے اور عدلیہ کی وجہ سے ادھو کو کامیابی ملی اور تاریخی گیدرنگ خود سے جمع ہوئی ہے جب کہ دو تین ماہ قبل کی پیدائش کے شنڈے گروپ کو بے تحاشہ خرچ کرکے اورسرکاری ٹرانسپورٹ کو استعمال کرکے لانا پڑا ؛لیکن نہ الکشن کمیشن یاED وغیرہ نے ان رقومات پر سوال کھڑا کیے تب یکطرفہ کاروائیوں پر سوال اور قلم تو اُٹھیں گے ہی۔ گجرات کو چھوڑ کر ہماچل میں12Novکو الکشن اور ایک ماہ بعد8Dec نتائج کا اعلان صاحب کی چاٹو اکاری نہیں تو کیا ہے۔
مین اپوزیشن کانگریس نے بھارت جوڑو یاترا کے انعقاد کی وجوہات کے ضمن میں کہا کہ اپوزیشن پر پارلیمنٹ بند(برائے بحث) اور میڈیا پر صرف سرکارکا پرچار اور اپوزیشن کو مسلسل دھتکار نیزایجنسیز کا بے دریغ وار کے بعد عوام تک بات پہنچانے کا کوئی ذریعہ باقی بچا نہیں تھا۔اس لیے کنیا کماری تا کشمیر پانچ ماہ 3600kmکی بھارت جوڑوپد یاتراآخری ذریعہ اپوزیشن کو بچا رہ گیا تھا۔اس بیان سے ملک کی جمہوریت یا پوشیدہ آمریت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔بھارت جوڑو یاترا (جس نے ٹاملناڈ‘کیرالا کرناٹک میں14Octتک1000kmتکمیل کرلیے ہیں)کے بعد راہول گاندھی اور یاتریوں پر بھاجپا کی جانب سے گھٹیا الزامات لگائے گئے کیونکہ لاکھوں لوگ بھارت جوڑو Message اوریاترا سے جڑ رہیں ہیں اور نفرت مہنگائی بیروزگاری اور معاشی عدم برابری کی کھائی سے پریشان ہیں؛اور اپوزیشن اور قومی سطح کی مدّمقابل پارٹی کو زندہ ہوتا دیکھ نیز راہول گاندھی کے نئے اوتار کو لوگوں کے من میں جگہ پانے کو لے کر بھاجپا ضرور پریشان ہے کہ اس کی زمین کھسک رہی ہے؛چنانچہ RSSکے بھاگوت مسجد مدرسہ کو پہنچنے لگے ہیں اور مہنگائی و بیروز گاری کو تسلیم بھی کرنے لگے ہیں۔بے شرمی اور غیر اصولی پن ہے کہ درباری چاٹوکار زرخرید میڈیا ہنوز بھارت جوڑو بائیکاٹ میں اسکرین پر Spaceدینے غیر آمدہ ہے۔بھارت جوڑو اور راہول بابت سنٹرل منسٹر میڈم ایرانی کاجھوٹ پکڑا گیا ہے؛بلکہ محترمہ ۔۔چل جھوٹی ۔۔کے عوامی لقب سے سرفرازی گئی ہیں۔
جمہوری قبا کے ان رہزنوں میں ایک نیا نام چلڈرن حقوق وتحفظ کے ادارے (Ncpcr)کا بھی شامل ہوگیا ہے جس کی ایک آنکھ اندھی ہے؛ کیونکہ اس کو یاترا سے پہلے پرائم منسٹرکا متعدد مرتبہ علی الاعلان اس طرح بچوں کو سیاسی مہم میں شریک کرنادکھائی نہیں دیا ہے؛اور بچوں کے تحفظ کا یہ ادارہ منہ میں مونگ پھلّی ڈال کر جگالی میں جٹا رہا ہے۔آقاؤں کی گُڈ بک میں شریک ہونے کی خاطر اپوزیشن اور راہول پر وار کا نادر موقع گنوایا نہیں گیا۔نہ صرف نوٹس دی گئی بلکہ حد تو یہ بھی کہ الکشن کمیشن کو توجہ دلائی گئی کہ وہ کاروائی کرے۔چنانچہ اندھے کا دوست اندھا کی مانند الکشن کمیشن نے کانگریس اور راہول سے جواب مانگا جب کہ نہ یاترا سیاسی ہے؛ اورنہ ہی پد یاترا کسی الکشن کا حصہ ہے؛ اور نہ ہی کوئی الکشن کا موسم ہے کہ الکشن کمیشن کو پاور حاصل ہوجاتے ۔قسمت خراب کہ دونوںغیر جانبدار ادارے بدنام ہوکر سامنے آگئے۔ ایک اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ گجرات میں پریشان بھاجپا نے بھی یاتراؤں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
حالیہ عدلیہ کی دو ججوں کی بنچ کا منقسم فیصلہ مسلمان لڑکیوں کے حق حجاب کو لے کر سامنے آیا ہے۔یہ تو گلاس میں آدھا پانی والا معاملہ بن گیا ہے البتہ یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ افراد کی اُٹھان اور پرورش نیز تعلیم و
َتربیت جس ماحول میں ہوتی ہے اس کا اثرزندگی بھر سامنے آتا رہتا ہے۔زاعفرانی نظریات نے ایک حد تک ذہنوں کو مسمور و مسحور ضرور کردیا ہے کہ اب تو بن بولے بات بن جائے والا معاملہ ہونے لگا ہے۔بابری مسجد کا دیوانی کیس اگر عدالت عالیہ آستھا کوبنیاد بنا کرفیصلہ کرنے لگے تو ایوان عدل کے وقار کی محافظت کون کرے گا۔ اور دنیا بھر کی انصافی گلیاروں میں بھارتی وقعت کی قیمت کیا کچھ باقی رہے گی۔یہ تو شکر ہے کہ بھارت کے مسلمان عدلیہ کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں ؛البتہ ملک میں ایسی مثالیں ضرور ہیں جب عورتوں کو مندر میں جانے کے حق کے فیصلہ دینے کے بعد ملک کا ہوم منسٹر عوامی سبھا میںسپریم کورٹ فیصلے کو چیلنج کرتا ہے ۔اور عدلیہ عالیہ کو یہ معاملہ بڑی بنچ کو بیچ میں لاکر (14Nov18) لاج رکھنی پڑ چکی ہے۔کیا یہ واقعات ملک کی جمہوریت اور قانون کی نظر میں برابری اور سب کے حقوق سمان اور اقتدار کے ہمراہ حزب اختلاف کے حق میں جاتے ہیں! یا اس کے پرخچے اڑاتے ہیں؟ جمہوریت میںعوام کی عدالت بڑی مانی گئی ہے۔ اور اگر عوام مون دھارن Vacationپراور اندھ بھکت مزے لوٹنے میں مگن ہوں ۔۔۔تب بھی ۔۔ملک کے خیر خواہوں کو جاگنا اور اُٹھنا توہوگا ہی۔خیر خواہی میں بحر حال خیر ہی خیر ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰