سڑکوں کی توسیع ۔ ٹاؤن پلاننگ عہدیداروں کی جانب سے فراہم کردہ رضامندی فارم پر ہرگز دستخط نہ کریں آپ کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اظہارِ رضامندی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے
٭ ریاستی ہائیکورٹ ہر نوٹس پر موافق احکامات صادر کررہاہے۔ ٭ اگر قانونی رائے پر عمل کیا جائے تو انہدامی کارروائی کئی سال تک رک جائے گی۔ ٭ اس قدر معاوضہ ملے گا کہ آپ متبادل جائیداد خریدسکیں۔ ٭ کم از کم کئی سال تک کرایہ کی آمدنی آتی رہے گی۔ بے خوف ہونے کی ضرورت ہے۔
محمد ضیاء الحق (ایڈوکیٹ ہائیکورٹ حیدرآباد)
رواں ہفتہ ہائیکورٹ آف تلنگانہ نے شیخ فیض کمان ‘ یاقوت پورہ اور دبیرپورہ میں واقع کئی مالکینِ جائیداد کی جانب سے پیش کردہ رٹ درخواستوں پر اولین مرحلہ سماعت پر ہی حکم التواء جاری کیا اور گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے ٹاؤن پلاننگ عہدیداروں کو ہدایت جاری کی کہ جب تک قانونِ حصولِ اراضی کی کارروائی نہیں ہوجاتی‘ نہ تو درخواست گزاروں کو ان کی رہائش سے بے دخل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان پر رضامندی فارم پر دستخط کرنے کے لئے جبر کیا جاسکتا ہے۔ ان احکامات کے بعد رٹ درخواست گزارمالکینِ جائیداد کو راحت بہم پہنچائی گئی ورنہ انہیں میونسپل کارپوریشن کی جانب سے ہراساں کیا جارہا تھا اور TDR کے بدلے اپنی جائیدادیں دینے پر مجبور کیا جارہا تھا۔
TDR یعنی ٹرانسفریبل ڈیولپمنٹ رائٹ کوئی چیک نہیں کہ آپ کو کوئی بھاری رقم حاصل ہو۔ اس احسان کے بدلے آپ کو رعایت دی جائے گی کہ متاثرہ رقبہ اراضی کے برابر اگر آپ کے پاس کوئی اراضی ہو تو اس حد تک آپ کو ایک منزلہ مکان تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے گی ‘ جبکہ دوسری جانب آپ کی زائد از ایک لاکھ روپیہ مربع گز اراضی ہڑپ لی جائے گی اور ساتھ ہی تعمیری رقبہ کا نقصان ہوگا۔ TDR ایک لالچ ہے اور دھوکہ ہے ۔ یہ ایک جال بچھایا ہوا ہے کہ آپ کو پھانس لیا جائے۔
دوسری جانب پہلے تو حکومت کا مالی موقف بہت ہی کمزور ہے۔ GST کی ساری آمدنی پر مرکزی حکومت نے قبضہ کررکھا ہے۔ اگر لینڈ اکویزیشن کی کارروائی ہو تو پہلے تو اس کارروائی کی تکمیل میں تین چار سال کا عرصہ لگے گا اور پھر اس کے بعد بازاری قیمت کے بالمقابل صد فیصد زیادہ معاوضہ ادا کرنا پڑے گا۔ معاوضہ میں تعمیری رقبہ کی بھی دوگنی رقم ادا کرنا پڑے گا جو حکومت کے لئے ایک بارِ گراں ثابت ہوگا ‘ لہٰذا بہ آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر متاثرہ افراد ہائیکورٹ سے رجوع ہوں تو مجوزہ کارروائی شائد آٹھ دس سال تک نہ ہوسکے اور اس وقت تک جائیداد کی کرایہ کی آمدنی بھی آتی رہے گی اور اپنے مکان میں رہائش بھی یقینی ہوسکے گی۔
شہر حیدرآباد میں جس تیزی کے ساتھ مکانات‘ دوکانات اور زمینات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اگر جائیدادوں کی مہنگائی کا یہی عالم رہے تو اچھے خاصے مکان کی بجائے ایک چھوٹا سا کمرہ اس معاوضہ یا TDR سے نہیں مل سکے گا۔ دوسری جانب مکانوں کے کرائے بھی آسمان چھورہے ہیں لہٰذا یہی سب سے اچھی اور مناسب بات ہوگی کہ عہدیداروں یا سیاسی گماشوں کی باتوں میں یا دھمکیوں میں آکر اپنی اچھی خاصی جائیداد سے ہاتھ نہ دھویا جائے۔
اگر آپ ہمت سے کام لیں اور حکومتی ہتھکنڈوں سے خوفزدہ نہ ہوں اور نوٹس کی وصولی کے بعد ہائیکورٹ سے رجوع ہوجائیں تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
سڑکوں کی توسیع میں تیر کے نشانات
شادیوں کی راہ میں حائل ہورہے ہیں
کئی مثالیں ایسی بھی سامنے آئیں ہیں کہ اچھے خاصے لڑکوں کی شادیوں میں رکاوٹ صرف اس وجہ سے ہورہی ہے کہ ان کی رہائش گاہ پر بلدیہ کی جانب سے تیر کے نشانات لگائے گئے ہیں۔ لڑکی والوں کو خوف لاحق ہے کہ اگر شادی ہو اور لڑکے کا گھر توسیع کی زد میں آجائے تو پھر رہائش کا انتظام کہاں کرنا ہوگا۔ لہٰذا رشتوں سے صرف اسی وجہ سے انکار کیا جارہا ہے ۔ سڑکوں کی توسیع کا عمل ایک سماجی مسئلہ بن رہا ہے۔
لہٰذا وقت کا تقاضہ صرف یہی ہے کہ آپ قانون اور عدلیہ پر بھروسہ رکھیں۔ عدلیہ کتنی ہی کمزور سہی لیکن ایسے معاملات میں فعال ہے اور یقینی طور پر راحت بہم پہنچارہی ہے۔
مرحومہ صاحبزادی انجمن آراء بیگم والا جاہی
کے ورثاء متوجہ ہوں
معروف مصنفہ مرحوم صاحبزادی انجمن آراء بیگم والا جاہی جن کی بنجارہ ہلز پر آبائی13ایکر اراضی متصل روڈ بنجارہ ہلز تھی اور جہاں آج اس جگہ پر اراضی کی قیمت دو لاکھ روپیہ فی مربع گز ہے‘ کچھ سال قبل انتقال کرگئیں۔ ان کی مقبوضہ 13ایکر اراضی پر حکومتِ آندھرا پردیش نے2006ء میں لینڈ گریب ٹریبونل میں ایک مقدمہ دائر کرکے اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا تھا اور مرحومہ کو بے دخل کرنے کی خواہش کی ۔ مرحومہ مصنفہ نے ایک شیرنی کی طرح حکومت سے مقابلہ کیا اور تمام دستاویزی ثبوت ٹریبونل میں پیش کئے۔ مقدمہ چلتا رہا جس کی پیروی راقم الحروف نے کی تھی۔ دورانِ مقدمہ محترمہ کا انتقال ہوگیا اور حسنِ اتفاق کہ ان کے انتقال کے چند روز بعد ہی ٹریبونل کا فیصلہ ان کے حق میں آیا اور ان کے قبضہ کو قانونی قراردے کر حکومت کا مقدمہ خارج کردیا گیا اورریمارک کئے کہ حکومت کا ادعا بے بنیاد ہے اور بلا وجہ معقول حکومت انہیں ہراساں کررہی ہے۔
حکومت نے اس فیصلہ کے خلاف رٹ درخواست پیش کی ہے جو یقینی طور پر خارج کردی جائے گی ۔ اب ریکارڈ کے مطابق اور مقدمہ کی روائیداد کے مطابق مرحومہ کا قبضہ مسلمہ ہے لیکن حکومت نے بغیر کسی بنیاد کے اراضی کے اطراف حصار بندی کردی ہے۔ یہ بات بہت ہی افسوسناک ہے کہ ان کے ورثاء میں سے کسی نے بھی آگے آکر اپنا ادعائے ملکیت پیش نہیں کیا۔ اگر وہ سامنے آجائیں تو یہ قیمتی اراضی کے مالک قراردیئے جائیں گے اور بربنائے فیصلہ ان کو قبضہ مل جائے گا کیوں کہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ محترمہ کا قبضہ غیر قانونی ہے یہ دعویٰ مسترد یا خارج ہوگیا ہے۔
مرحومہ کے ورثاء اور خصوصاً ایک اکلوتے بیٹے کو اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ اولین فرصت میں ہم سے ربط قائم کریں تاکہ ہائیکورٹ میں (L.R) درخواست پیش کی جاسکے ۔اگر کوئی صاحب مرحومہ کے اکلوتے فرزند سے واقف ہوں تو برائے مہربانی انہیں اطلاع دیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ مرحومہ کی جائیداد کی آج کی قیمت کے مطابق زائد از 1200 کروڑ روپیہ ہے۔ ہماری اطلاع کے مطابق مرحومہ کی رہائش گاہ ملک پیٹ ریس کورس کی سڑک پر جاتے ہی بائیں جانب کی ایک گلی میں تھی۔ اگر کوئی صاحب اس ضمن میں کوئی رہنمائی کریں تو ان کا احسان ہوگا۔ اگر مرحومہ کے صاحبزادے کے کوئی دوست بھی ہوں تو اس خبر کی اطلاع انہیں دے سکتے ہیں۔ اگر وہ ملک کے باہر بھی ہوں تو وہ حیدرآباد آسکتے ہیں۔
مرحومہ مصنفہ اپنی آبائی جائیداد کے حصول کی خاطر زندگی بھر لڑتی رہیں اور ان کی رحلت کے بعد فیصلہ ان کے حق میں آیا۔
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
اقبالؒ
معاہدہ بیع کی خلاف ورزی
معاہدہ منسوخ کیا جاسکتا ہے
سوال:- میں نے اپنی زرعی اراضی موازی12ایکر ایک رئیل اسٹیٹ بزنس مین کو فرخت کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدہ کو کئے ہوئے دو سال گزرگئے ۔ معاہدہ میں ایک خطیر رقم ہے جس کا تذکرہ ضروری نہیں۔ معاہدہ کے مطابق صرف پانچ فیصد رقم بطورِ اڈوانس دی گئی تھی اور وعدہ کیا گیا تھا کہ اندرونِ مدت بارہ ماہ مابقی رقم ادا کرکے بیعانہ کروالیا جائے گا۔
لیکن خریدار نے وعدہ کی خلاف ورزی کی اور معاہدہ کے وقت ہی ایک فرضی لے آؤٹ بنوایا اور خوبصورت بروشر چھپواکر اراضی کے پلاٹس کے فروخت کے اشتہارات شائع کئے۔ میرے بارہا کہنے کے باوجود بھی اس نے مابقی رقم ادا نہیں کی۔ اس کے اطراف ایک طاقتور سیاسی لابی ہے کیوں کہ اراضی کی قیمت حالیہ دنوں میں بہت بڑھ گئی ہے اس کی نیت خراب ہوگئی ہے۔
معاہدہ کی نقل روانہ کی جارہی ہے ۔ براہِ کرم اس کو پڑھ کر اپنی رائے کی اشاعت فرمائیں۔ میرے نام اور مقام کا تذکرہ نہ فرمائیں۔ فقط۔
X-Y-Z حیدرآباد
جواب:- معاہدہ کا مطالعہ کیا گیا۔ آپ نے یہ بہت اچھا کیا کہ معاہدہ میں اس بات کا تذکرہ نہیں ہے کہ فریقِ مخالف کو قبضہ دے دیا گیا ہے۔ مدتِ معاہدہ گزرچکی ہے ۔ آپ اولین فرصت میں فریقِ مخالف کے نام ایک قانونی نوٹس جاری کرتے ہوئے معاہدہ کو منسوخ کرنے کا اعلان کریں۔ بعد ازاں تین اخبارات تلگو ‘ انگریزی اور اردو میں اعلانِ تنسیخ معاہدہ بیع کا اشتہار شائع کریں۔ نوٹس میں اس بات کا تذکرہ کریں کہ ازروئے معاہدہ بارہ ماہ کی مدت گزرنے کے بعد اس کی ادا کی گئی رقم ضبط کرلی گئی ہے۔ اس عمل کو اپنی اولین فرصت میں کریں ورنہ وہ شخص کسی بھی عنوان پر آپ کے خلاف انجنکشن آرڈر حاصل کرسکتا ہے۔ آپ کو اس قدر دیر نہیں کرنی چاہیے تھی۔
آپ نے سب سے بڑی غلطی یہ کہ کی اڈوانس کی بہت ہی قلیل رقم وصول کی ۔ جیسے ہی مدت ختم ہوئی آپ کو معاہدہ کی منسوخی کی نوٹس دینا چاہیے تھا ۔ تیسری غلطی یہ تھی کہ آپ نے اتنے بڑے معاہدہ سے پہلے کوئی قانونی مشورہ حاصل نہیں کیا تھا۔
جو بھی کہا گیا ہے اس پر اولین فرصت میں عمل کیجئے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰