سیاستمضامین

طوفان الاقصی کے مضمرات

مولانا سید احمد ومیض ندوی (استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد)

ایک ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن اسرائیل کی درندگی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے 10 ہزار سے زائد بے قصور فلسطینی مسلمان لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں 4 ہزار سے زائد معصوم بچے ہیں جنگ کے عالمی قوانین اور جنیوا کنونشن کو بالائے طاق رکھ کر اسرائیل جنون کی حد تک غزہ پر بموں کی بارش کر رہا ہے اسپتال پناہ گزین کیمپس اور اسکولز تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اسرائیل کی بری افواج غزہ میں داخل ہو چکی ہیں اقوام متحدہ اور دنیا کے مختلف ممالک کے جنگ بندی کے مطالبے کو خاطر میں لائے بغیر اسرائیل اندھا دھن آگ و خون کی ہولی کھیل رہا ہے غزہ کے معصوموں پر جو قیامت ٹوٹ رہی ہے اسے الفاظ کا جامہ پہنانا ممکن نہیں سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ عالمی برادری اور 57 مسلم ممالک اسرائیلی دہشت گردی کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں اہل یورپ جو خود کو انسانی حقوق کے چیمپئن کہتے ہیں غزہ کی تباہی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیا غزہ کے بچے انسان نہیں ہیں ؟کیا غزہ کی مائیں قابل احترام نہیں ہیں؟ دنیا بھر کے عوام اسرائیلی درندگی کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے عالمی دہشت گرد اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والا امریکہ بھی جرم میں برابر کا شریک ہےآخر درندگی کا یہ سلسلہ کب رکے گا اور آخر اسرائیل کو کون لگام لگائے گا ؟
ایک طرف اسرائیل وحشیانہ بمباری جاری رکھا ہوا ہے دوسری جانب مسلم امہ کے کچھ افراد اس پوری تباہی کے لیے حماس کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں حماس جو روز اول سے فلسطین کی آزادی اور مسجد اقصی کی بازیابی کے لیے اسرائیل سے لوہا لے رہا ہے بعض دانشوروں کی نگاہ میں خوب کھٹک رہا ہے ایسے نام نہاد دانشوروں کو کبھی اسرائیل اسرائیلی درندگی پر اظہار خیال کی توفیق نہیں ہوتی اس قسم کے دانشوروں کے خلاف حقیقت پروپیگنڈے سے سادہ لوح افراد بھی متاثر ہو رہے ہیں اب وہ بھی کہنے لگے ہیں کہ اسرائیل پر حماس نے جو حملہ کیا ہے وہ لا حاصل ہے اور اس سے فائدے کے بجائے امت کا نقصان ہو رہا ہے حماس کی جانب سے کیے گئے آپریشن طوفان الاقصی سے اگرچہ چند ہزار فلسطینیوں کی جانیں چلی گئی لیکن اسرائیل فلسطین تنازعہ پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ آپریشن اپنے اندر بے پناہ مضمرات رکھتا ہے اور اس کے خطہ پر انتہائی دو رس اثرات مرتب ہوں گے ۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر مجمع العلوم الاسلامیہ نامی ادارے کی جانب سے ایک تحریر بعنوان طوفان الاقصی سے کیا فائدہ حاصل ہوا ؟ خوب وائرل ہوئی جس میں حماس کے اسرائیل کے خلاف حالیہ آپریشن کے متعدد فوائد شمار کیے گئے ہیں سطور ذیل میں اسے اس لیے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ حماس کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈے سے متاثر افراد کا ذہن صاف ہو جائے اور انہیں اندازہ ہو جائے کہ حماس کا یہ اقدام کس قدر ہمہ جہت فوائد کا حامل ہے:
۱۔ طوفان الاقصی نے مختلف اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
۲۔دنیا کی چوتھی مضبوط فوج کہلائی جانے والی اسرائیلی فوج اور اسرائیلی ایجنسی کا غرور خاک میں ملا کر ان کی ساری ٹیکنالوجی کو ناکام ثابت کر دیا۔
۳۔ 700 تو صرف اسرائیلی فوجی مرے ہیں 300 سے زیادہ اہلکار و افسران گرفتار ہوئے ان میں چار برگیڈیئر جنرل اور ایریا کمانڈر کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ سب عام شہریوں کے علاوہ ہیں جن کی تعداد 150 بتائی جا رہی ہے ۔
۴۔ دشمن کی چار فوجی چھاونیوں اور غزہ کے اس پار واقع مقبوضہ علاقوں سے بڑی مقدار میں اسلحہ بارود اور مال غنیمت ہاتھ آیا۔
۵۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس دنیا کے بہترین فوجی ٹینک کہلائے جانے والے 50 سے زائد ٹینک جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیے۔
۶۔ موساد کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا اور غزہ اور مشرق وسطی میں موساد کی جانب سے تعینات کیے جانے والے سارے جاسوسوں کا ڈیٹا اور ہیڈ کوارٹر کے سارے کمپیوٹر حماس کے مجاہدین کے قبضے میں آ چکے ہیں۔
۷۔ فوجی افسران اور غزہ کی 40 کلومیٹر کی حدود میں واقع دشمن کے فوجی ڈپو میں موجود چھوٹے راڈار مجاہدین کےہاتھ آگیے ہیں اور کئی راڈار تباہ کر کے دشمن کے ٹھکانوں پر مارے۔
۸۔ اسرائیل کے مختلف علاقوں پر 15 ہزار سے زائد میزائل برسائے ہیں جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے زائد صہیونی اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور بہت سے مقبوضہ علاقے تو بالکل خالی کر دیے ہیں انہی میں سے ایک عسقلان کا علاقہ بھی ہے جس سے اسرائیلی دم دبا کر بھاگے ہیں۔
۹۔ اب تک کی کاروائیوں میں لگ بھگ ڈھائی ہزار اسرائیلی مارے گئے۔
۱۰۔ بین الاقوامی انٹلی جنس ایجنسیز خاص طور پر جی سیون ممالک کی ایجنسیاں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی کہ ان کی ناک کے نیچے یہ سب منصوبے بنتے رہے اور انہیں کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔
۱۱۔ مسئلہ فلسطین ایک بار پھر پوری قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا خصوصا اسلامی ممالک اور عرب ممالک میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں دوبارہ ایک بیداری کی لہر پیدا ہوگئی۔
۱۲۔کئی ممالک نے اسرائیلی سفراء کو اپنے ملکوں سے بے دخل کر کے جنگ بندی تک سفارتی تعلقات موقوف کر دیے ہیں۔
۱۳۔ اس حملے سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ مغربی دنیا کے حقوق انسانی جنگی قوانین جنگی آداب اور انسانیت کے کھوکھلے نعروں کی قلعی کھل گئی اور دنیا کو پتہ چل گیا کہ انسانیت کا چورن بیچنے والے یہ مغربی ممالک ہی دراصل انسانیت کے سب سے بڑے قاتل ہیں۔
۱۴۔ اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں موجود صہیونیت کے خفیہ سپورٹرز اور مسلمانوں کے بھیس میں موجود منافق افراد جماعتوں اور تنظیموں کے چہرے سے نقاب اترا۔
۱۵۔اس حملے سے مسلمانوں میں دوبارہ جذبہ جہاد اور شوق شہادت پیدا ہوا اور مسلمانوں میں اپنے عقائد نظریات عزت اور وقار کے دفاع کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہونے کا جذبہ بیدار ہوا۔
۱۶۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سات اکتوبر 2023 سے اسرائیل کے زوال کا آغاز ہو چکا اور اگر مسلمان ملت نے وفا کی تو بہت جلد یہ غاصب ناجائز ریاست صفحہ ہستی سے فنا کے گھاٹ اتار دی جائے گی۔
غزہ سے تازہ ترین چشم دید روداد
ھلال احمر اردن میں کام کرنے والے ایک دوست ڈاکٹر عبدالناصر الزیود 29 اکتوبر کو غزہ میں 23 گھنٹے گزار کر واپس مصر آئے تو انکے بیان کردہ حالات کا خلاصہ کچھ یوں تھا:
۱۔ عمارتیں ضرور تباہ ھو گئی ھیں، مگر دل اور جذبات مستحکم اور نہایت بلند ھیں، ان میں کوئی دراڑ بھی نہیں آئی۔
۲۔ زیادہ وقت ہسپتالوں میں زخمیوں کے درمیان گزرا ان کے خیالات و تاثرات ھم صحت مندوں سے زیادہ بہتر اور تسلی بخش تھے۔
۳۔ میں نے ان 23 گھنٹوں میں اصل مردانگی، شجاعت و دلیری اور جو قوت ایمانی اس زمینی ٹکڑے میں دیکھی وہ کہیں اور نہیں پائی جاتی۔
۴۔ یہاں کے لوگ ایک لقمہ روٹی ،ایک گھونٹ پانی اور ایک دھیلا بھی باھم بانٹ کر استعمال کر رھے ھیں، یہ کیفیت کتابوں میں تو پڑھی تھی مگر بچشم سر پہلی بار دیکھی۔
۵۔ اسر ا ئیل کی جانب سے انٹرنیٹ کاٹ دیا گیا ھے، مگر مصری نیٹ ورک اور بعض جگہوں پر خود اسرائیلی نیٹ ورک سے بھی لوگ کام نکال رہے ہیں۔
۶۔ رفحہ بارڈر پر اسر ا ئیلی تفتیشی فوجیوں کی بد حواسی، اور ان پر طاری خوف و رعب کی کیفیت دیدنی ہے۔
۷۔ غزہ معرکہ جیت چکا ہے، اسکی طرف سے مطمئن رہیں یہاں جو ہم نے دیکھا وہ ایمان کا عروج اور تسلیم رضا کی معراج ہے اور یہی اصل فتح و نصرت ہے۔ میں دسیوں بار غزہ جا چکاہوں مگر اس بار کا غزہ کچھ اور ہی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w