مذہب

علم نافع کا حصول

رسول اللہ ﷺ جس وقت دنیا میں تشریف لائے، یہ دنیا ہر طرح کی برائیوں کی آماجگاہ تھی، کوئی برائی نہ تھی جو عرب کے سماج میں نہ پائی جاتی ہو، لوگوں کی جان محفوظ تھی نہ مال اور نہ عزت و آبرو، بے حیائی کا یہ حال تھا کہ اور مواقع تو کجا، کعبہ کا طواف بھی بے لباس کرتے تھے، مرد بھی عورت بھی، ظلم وجور کی کوئی حد نہ تھی اور سماج کے تمام فیصلے ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کے اُصول پر ہوا کرتے تھے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

رسول اللہ ﷺ جس وقت دنیا میں تشریف لائے، یہ دنیا ہر طرح کی برائیوں کی آماجگاہ تھی، کوئی برائی نہ تھی جو عرب کے سماج میں نہ پائی جاتی ہو، لوگوں کی جان محفوظ تھی نہ مال اور نہ عزت و آبرو، بے حیائی کا یہ حال تھا کہ اور مواقع تو کجا، کعبہ کا طواف بھی بے لباس کرتے تھے، مرد بھی عورت بھی، ظلم وجور کی کوئی حد نہ تھی اور سماج کے تمام فیصلے ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کے اُصول پر ہوا کرتے تھے، مذہبی پہلو سے دیکھئے تو بد ترین شرک تھا، جس میں عرب گرفتار تھے اور عرب سے لے کر چین تک پوری مشرقی دنیا علانیہ شرک میں مبتلا تھی، سلطنت ِروم کا مذہب گو عیسائیت تھا ؛ لیکن یہاں بھی توحید کے پردہ میں شرک ہی کی حکمرانی تھی اور ایک خدا کے بجائے تین افراد پر مشتمل خدا کا کنبہ تشکیل پا چکا تھا اور ان سب کی پرستش کی جاتی تھی ۔

ان حالات میں رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے اور جب عمر مبارک چالیس سال ہوئی تو نبوت کا تاج گہربار سر مبارک پر رکھ دیا گیا، بہ ظاہر یہ خیال ہوتا ہے کہ ان حالات میں جو پہلی وحی نازل ہوتی، وہ اصلاحِ عقیدہ کے پہلو سے توحید کے اثبات اور شرک کے رد میں ہوتی، یاانسانی نقطۂ نظر سے ایسی آیت ہوتی جس میں ظلم و جور سے منع کیا گیا ہو اور انسانی اُخوت وہمدردی اور محبت و مروت کی طرف دعوت دی گئی ہو، یا سماجی اصلاح سے متعلق کوئی آیت ہوتی، جس میں بے شرمی اور بے حیائی سے روکا گیا ہو ۔

آپ ﷺ پر سب سے پہلے جو آیت نازل ہوئی، اس میں ان میں سے کسی بات کا تذکرہ نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اِقْرَا بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اِقْرَا وَرَبُّـکَ الْاَ کْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ ۔ (علق: ۱-۵) اپنے رب کے نام سے پڑھ جو سب کا خالق ہے، جس نے آدمی کو جمے ہوئے لہو سے بنایا، پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم سے علم سکھایا، آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا ۔

یعنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تعلیم اور پڑھنے کی طرف متوجہ فرمایا ؛ اس لئے کہ علم کی مثال روشنی کی سی ہے، اگر کسی تاریک کمرہ میں سانپ بھی ہو، بچھو بھی اور دوسرے تکلیف دہ کیڑے مکوڑے بھی، آپ ان سب کو مارنے اور بھگانے کے لئے الگ الگ محنت کریں، تووقت بھی زیادہ لگے گا اور شاید کامیابی بھی نہ ہو ؛ لیکن اگر آپ ایک چراغ جلا کر رکھ دیں، توخود بخود یہ کیڑے مکوڑے اپنا بسیرا اُٹھالیں گے ؛ کیوں کہ تاریکی ہی ان کی پناہ گاہ ہے، یہی کیفیت انسانی سماج میں علم کی ہے، عقیدہ و عمل اور معاشرت و اخلاق کی تمام برائیاں جہالت کا نتیجہ ہیں، جہالت کی تاریکی ہی میں یہ تمام مفاسد پرورش پاتے ہیں، تعلیم کی روشنی جتنی پھیلے گی، یہ بگاڑ بھی خود بہ خود دُور ہوتا جائے گا، تعلیم کے بغیر سماج کی برائیو ںکو دُور کرنے کی مثال جڑوں کے بجائے ٹہنیوں اور پتوں پر پانی دینے کی ہے کہ اس سے وقتی فائدہ تو ہوسکتا ہے ؛ لیکن کسی دیر پا تبدیلی کی اُمید نہیں رکھی جاسکتی ۔

اسی لئے تعلیم کی بڑی اہمیت ہے، ایسا نہیں ہے کہ اسلام نے صرف مذہبی تعلیم ہی کو اہمیت دی ہو ؛ بلکہ اسلام نے علم کی تقسیم علم نافع اور علم غیر نافع سے کی ہے، جو علم انسان کو دینی یادنیوی اعتبار سے نفع پہنچائے اور ان کے مسائل کو حل کرے وہ علم نافع ہے اور جو علم انسانیت کے لئے ہلاکت اور مضرت کا سامان ہو وہ علم غیر نافع ہے، رسول اللہ ﷺ علم نافع کے لئے دُعاء کیا کرتے تھے اور جو علم نافع نہ ہو، اس سے پناہ چاہتے تھے، اس اُصول پر غور فرمایئے تو اکثر عصری علوم و فنون علم نافع کی فہرست میں آتے ہیں، طب انسانی جسم کے لئے نفع بخش ہے، انجینئرنگ انسانی ضروریات کی تکمیل میں مفید ہے، علم قانون میں انسان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہے، ادب و صحافت کے ذریعہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام ہوتا ہے، جس پر سماج کی اخلاقی اور وحانی اقدار کا تحفظ موقوف ہے، تجارت اور معاشیات سے متعلق علوم کا مقصد فرد اور سماج کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اور اس کے صرف کے جائز اور مناسب مواقع کی رہنمائی کرنا ہے، جس کے مفید اور نافع ہونے سے کس کو انکار ہو سکتا ہے ؟ اس لئے یہ تمام علوم اسلام میں مطلوب ہیں اور ان کی حیثیت فرض کفایہ کی ہے ۔

اسلام نے کبھی علم و تحقیق سے عداوت نہیں رکھی ؛ بلکہ لوگوں کو کائنات کی مخفی حقیقتوں میں غور و فکر اور تدبر کی دعوت دی اور حکمت و دانائی کی ہر بات کو مؤمن کی متاعِ گم گشتہ قرار دیا، علم کے اعتراف میں اپنے اور بے گانے کا فرق نہیں کیا، حضور ﷺ نے اُمیہ بن صلت کے اشعار کی تعریف فرمائی، جو زمانۂ جاہلیت کا شاعر تھا اور علم کی تحصیل میں بھی آپ ﷺ نے کبھی دوست اوردشمن کا فرق نہیں کیا، غزوۂ بدر میں جو لوگ قید ہو کر آئے، ان کے بارے میں آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ ان میں جو لوگ پڑھے لکھے ہوں، وہ دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں، یہی ان کا فدیۂ رہائی ہوگا، ظاہر ہے کہ وہ دشمن تھے نہ کہ دوست اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ مشرک تھے، علم دین تو ان سے حاصل ہو نہیں سکتا تھا، اگر آپ ان سے تعلیمی فدیہ وصول کرنے کے بجائے مالی فدیہ ہی وصول کرنے پر اصرار کرتے تو معاشی نقطۂ نظر سے اہل مدینہ کے لئے یہ مناسب ہوتا ؛ کیوں کہ اس وقت مسلمان سخت غریب اور افلاس کی حالت میں تھے اور فاقہ کشی کے ساتھ گذر بسر عام تھی ؛ لیکن آپ ﷺ نے ان حالات میں بھی تعلیم کو ترجیح دی، یہ گویا اس بات کا سبق ہے کہ تعلیم کا حاصل کرنا بہر حال ضروری ہے، چاہے اس کے لئے پیٹ کاٹنا پڑے، یافاقے برداشت کرنے پڑیں ؛ لیکن بچوں کی تعلیم کو کسی قیمت پر نظر انداز نہ کیا جائے ۔

آج مسلمانوں کو یہی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ معمولی کھائیں، معمولی کپڑے پہنیں، عیش و عشرت کے دوسرے اسباب سے اپنے آپ کو بچائیں، معاشی تنگی کو گوارا کریں؛ لیکن ہر قیمت پر اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں، ہمارے سماج کا کوئی بچہ ایسا نہ ہو جو تعلیم سے محروم رہے، عام طور پر غریبو ںکی مدد اور تعاون کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ وقتی طور پر کچھ پیسے دے دیئے جائیں، کچھ کھانے پینے کی چیز مہیا کر دی جائے، عید کا موقع ہو تو کپڑے دیئے جائیں، ہم اسی کو بڑی خدمت سمجھتے ہیں ؛ حالاں کہ خدمت کا زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ اس کے لئے روزگار اور معاشی سطح کو مستقل طور پر اونچا اُٹھانے کی تدبیر ہو، جیسے کوئی دوکان لگادی جائے، کہیں ملازمت دلا دی جائے، اس کی فضیلت زیادہ ہے اور رسول اللہ ﷺ سے ایسی تدابیر کا اختیار کرنا ثابت ہے، ایسی ہی تدابیر میں ایک یہ ہے کہ کوئی شخص اگر خود اپنے بچہ کو پڑھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، تو اس کے بچوں کو تعلیم دلادی جائے، یہ صدقۂ جاریہ ہوگا اور اس بچہ کے ذریعہ خود اس کی، اس کے والدین کی اورخاندان وسماج کی جو کچھ خدمت ہوگی، یہ اس کے اجر میں شریک ہوگا، یہ انسانی خدمت کا سب سے اہم اور مفید طریقہ ہے، اگر کسی شخص کے دو بچے ہوں تو اس کو خیال کرنا چاہئے کہ گویا اس کے تین بچے ہیں اور وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ اپنی قوم کے ایک اور بچہ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری قبول کر لے، یقیناً یہ بہت بڑی خدمت ہوگی اور اس طرح سماج کی بہت سی مشکلات حل ہوسکیں گی، جب تک پورا سماج نہ بڑھے اور پوری قوم ترقی نہ کرے، یقیناً ہماری ترقی اَدھوری اور ناتمام ہوگی ۔

عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان بچوں کی ایک اچھی خاصی تعداد پرائمری کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیتی ہے، بہت سے طلبہ ہائی اسکول کی سطح پر تعلیم ترک کر دیتے ہیں اوراعلیٰ فنی تعلیم میں تو ہمارے بہت ہی کم بچے پہنچ پاتے ہیں، یہ نہایت افسوس ناک بات ہے، ترکِ تعلیم کی وجہ کبھی معاشی ہوتی ہے، کبھی طالب علم کی پست ہمتی اور بہت سے گھروں میں والدین کی جہالت اور سر پرستو ں کی ناواقفیت، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان رہنما اوراہل دانش نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر گاؤں گاؤں اور شہر کے مختلف محلوں میں چند پڑھے لکھے رضاکاروں کی ایک کمیٹی بنائیں، جو سلسلۂ تعلیم منقطع کرنے والے بچوں اور ان کے سرپرستوں کے حالات کا جائزہ لیں، اگر طالب علم پست ہمتی کا شکار ہو رہا ہے تو اس کے لئے کچھ کوچنگ کا انتظام کریں اور ان کی ہمت بڑھائیں، اگر سرپرستوں کی غفلت اور ناسمجھی ہو تو ان کا شعور بیدار کریں اور جو مواقع گورنمنٹ کی طرف سے حاصل ہیں، ان کوان سے استفادہ کی راہیں بتائیں اور جو بچے معاشی پسماندگی کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہو رہے ہوں، ان کی تعلیمی وسائل میں مدد کریں اور اہل خیر کو اس جانب متوجہ کریں، کسی کو کتابوں کی ضرورت ہو تو کتاب دلادیں، کسی کو اسکولوں کی داخلہ فیس کا مسئلہ ہو تو اس میں تعاون کردیں، اس طرح ہم تھوڑی سی کوشش اور فکر مندی کے ذریعہ بہت سے طلبہ کے سلسلۂ تعلیم کو جاری رکھ سکتے ہیں

ایک اہم مسئلہ زبان کا بھی ہے، اسلام کسی زبان کا مخالف نہیں ؛ بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمام زبانیں اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں، خود آپ ﷺ کے حکم سے حضرت زید بن ثابتؓ نے کئی زبانیں سیکھیں اور ان میں مہارت حاصل کی ؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی مضمون کی تعلیم کے لئے سب سے بہتر ذریعہ ’’ مادری زبان ‘‘ ہے، اجنبی زبان میں طالب علم کو دوہری مصیبت پیش آتی ہے، ایک زبان کو سمجھنے کی اور دوسرے اس مضمون کو اپنے گرفت میں لانے کی، مادری زبان ایک دشواری کو آسان کر دیتی ہے اور طالب علم کو اپنا ذہن اس مضمون کے سمجھنے پر مرکوز رکھنے کا موقع ملتا ہے، اس لئے ہر سال اچھے رینک لانے والے اور مقابلاتی امتحان میں بہتر پوزیشن حاصل کرنے والے بچے وہ ہوتے ہیں، جو مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بناتے ہیں، اس حقیقت کو تمام ماہرین تعلیم تسلیم کرتے ہیں ؛ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ مادری زبان کی اہمیت کی طرف خود قرآن مجید میں بھی اشارہ ملتا ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : ہم نے ہرقوم میں اس قوم کی زبان میں پیغمبر بھیجا ہے : وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّابِلِسَانِ قَوْمِہٖ (ابراہیم: ۴)

بدقسمتی سے مسلمان اُردو زبان کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہیں، جو لوگ اُردو زبان کے تحفظ کی تحریک چلاتے ہیں ؛ بلکہ اُردو ہی کی روٹی کھاتے ہیں، وہ خود بھی اپنے بچوں کے لئے اُردو ذریعہ تعلیم کو پسند نہیں کرتے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت اُردو اقامتی اسکول قائم کرتی ہے ؛ لیکن بچے دستیاب نہیں ہوتے، یونیور سٹیوں میں اُردو کے شعبے ہیں ؛ لیکن طلبہ کے نہ ہونے کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ وہ بند ہو جائیں، یہ نہایت تکلیف دہ صورتِ حال ہے اور اس سلسلہ میں قومی سطح پر شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ آہستہ آہستہ ہم سے ہماری زبان بھی چھن جائے گی ۔

قوم سے صحیح محبت یہی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو تعلیم میں آگے بڑھائیں اور جس شرمناک تعلیمی پسماندگی سے ہم دو چار ہیں، پوری قوم کو اس سے باہر نکالنے کی کوشش کریں، مسلم جماعتیں ایک لائحۂ عمل مرتب کریں اور ایک محدود مدت کا پروگرام بنائیں کہ ہم اس مدت میں مکمل طور پر ناخواندگی کو مٹادیں گے اور ہمارے سماج کا کوئی لڑکا یا لڑکی ایسا نہ ہوگا جو تعلیم سے محروم ہو!